چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ سعودی عرب واقعے سے متعلق کوئی غلط مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ ماضی میں ریاستی عناصر کی جانب سے مذہب کے غلط استعمال نے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔ مذہب کی بنیاد پر غلط مقدمات سے پیدا ہونے والا ماحول عدم برداشت اور ماورائےعدالت قتل کا باعث بنا۔ مشال خان اور سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل اس کی ایک مثال ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح کے قتل بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ناقابل برداشت ہیں، مذہب یا مذہبی جذبات کا ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال خود سے توہین مذیب ہے۔
فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ امید ہے وفاقی حکومت مذہبی جذبات کے غلط استعمال کے مبینہ تاثر کو زائل کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جہاں وقوعہ ہوا تحریک انصاف کی قیادت وہاں موجود نہ تھی۔ فیصلے کے مطابق سعودی حکام نے حکومت پاکستان کو پی ٹی آئی قیادت کو مشتبہ قرار دینے کی کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف رہنما فواد چودھری کی جانب سے دائر کی جانے والے درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
اس مقدمے میں درخواست گزار نے عدالت کی توجہ مسجد نبوی کے واقعے پر دلاتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب واقعے کے مقدمات سیاسی طور پر پاکستان میں درج کیے جا رہے ہیں۔