جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے اپنے طور پر وہ اکثر ایک مذموم موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوج کے ساتھ مل کر کام کرنا ہی واحد راستہ ہے جو انہیں اقتدار تک پہنچا سکتا ہے۔ سیاست دانوں کی فوجی بیرکوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی خود غرضانہ عادت نے فوج کو پاکستان کی آزادی کے 76 سالوں میں سے زیادہ تر عرصے کے دوران اس بات کی اجازت دیے رکھی ہے کہ پھوٹ ڈالو اور اقتدار کرو کی پالیسی پر کاربند رہے۔
2018 سے 2022 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے عمران خان کے عروج و زوال نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں فوج نے عمران خان کو اقتدار تک پہنچایا تھا۔ جرنیلوں نے پاکستان کی دو بڑی روایتی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے 2011 میں عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو 'تیسری قوت' کے طور پر لانچ کیا تھا۔ ان سیاسی جماعتوں کی کامیابی کو فوج ملکی سیاست اور قومی سلامتی میں اپنے بڑھے ہوئے کردار کے لئے خطرہ سمجھتی تھی۔ انتخابی مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق فوج نے 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم نواز شریف کے راستے میں روڑے اٹکا کر عمران خان کے لئے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا تھا۔
شروع میں عمران خان اور جرنیلوں کے مابین اتحاد قائم رہا۔ لیکن چند ہی سالوں کے بعد جنرل باجوہ عمران خان کی حکومت کی معاشی کارکردگی سے تنگ آ گئے اور پاکستان کی نمایاں انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی میں عمران خان کی مداخلت انہیں خاصی ناپسندیدہ لگی اور وہ بگڑ گئے۔ جنرل باجوہ کے ساتھ ان کے جھگڑے نے 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے لئے ماحول سازگار بنایا اور اس ان بن کی قیمت عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کی صورت میں چکانا پڑی۔ ایسا پاکستان میں اکثر ہوتا رہا ہے کہ فوج کسی سویلین رہنما کو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول بنا دیتی ہے اور پھر غیر رسمی انداز میں اسے گھسیٹ کر اقتدار سے الگ کر دیتی ہے۔
تاہم عمران خان کی برطرفی کے بعد جو کچھ ہوا وہ حیران کن تھا۔ عمران خان نے خاموشی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے نئی حکومت اور فوج کے خلاف ایک پرجوش مہم شروع کر دی۔ مئی 2023 میں واقعات اپنے عروج کو پہنچے جب عمران خان کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور اس کے نتیجے میں عمران خان کے حامیوں کی جانب سے مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں کے دوران فوج کے ہیڈ کوارٹرز، تنصیبات اور یہاں تک کہ شہدا کی یادگاروں پر حملے کیے گئے۔ اتنے سالوں میں فوج خود کو درپیش سب سے بڑے، واضح اور براہ راست چلینج کا جواب دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئی۔ اور چاہے تھوڑی ہی دیر کے لئے سہی لیکن بہت سے مبصرین نے محسوس کیا کہ پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے جاری داؤ کا پانسہ پلٹا جا چکا ہے۔
مظاہرین کو روکنے کے لئے فوج کی جانب سے طاقت کے استعمال سے باز رہنے نے اس طرح کے شکوک و شبہات کو ہوا دی کہ جیسے فوج اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے جس میں آدھے لوگ عمران خان کے حامی ہیں اور باقی دوسری جانب ہیں۔ بعض لوگوں کا استدلال تھا کہ ایک منقسم فوج عمران خان اور ان کے حامیوں کو نیچے گرانے میں ٹھوس انداز سے کام نہیں کر سکے گی اور ملکی سیاسی میدان پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے گی۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ فوج نے اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے کسی بھی تاثر کو غلط ثابت کر دیا۔ فوج نے منظم انداز میں پی ٹی آئی پر دباؤ ڈالنے اور عام پاکستانیوں کی زندگیوں پر اپنا تسلط بحال کرنے کے لئے ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے عمران خان کی مقبولیت اور تقسیم کی کوشش کو اسی فوج نے بہت سخت اور ممکنہ طور پر مہلک دھچکا لگایا جس نے انہیں تخت پر بٹھایا تھا۔ عمران خان کے مخالفین یعنی وہ سویلین سیاسی جماعتیں جو عشروں سے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو کم کروانے کی جدوجہد کرتی رہی ہیں، انہوں نے اس سارے عمل میں پہلے سے بھی بڑا سمجھوتہ کر لیا ہے۔ یہ جماعتیں فوج کو پھر سے اجازت دے رہی ہیں کہ وہ اپنی بالادستی قائم کر لے اور ملک کی جمہوری روایات اور جمہوری اداروں کو جو پہلے ہی سے کمزور ہیں، مزید کمزور کر رہی ہیں۔
شطرنج کی چال جو عمران خان نے چلی
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کے وقوع پذیر ہونے میں پورا ایک سال لگا ہے۔ اپریل 2022 میں فوج نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور عمران خان کے ناراض اتحادیوں کو اکٹھا کر کے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروایا۔ واضح شکست دیکھ کر عمران خان نے اپنی حکومت کو بچانے اور اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لئے آخری چال یہ چلی کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا الزام امریکہ اور اس کے پاکستان میں اتحادیوں یعنی جنرل باجوہ اور عمران خان کے سیاسی مخالفوں پر لگایا کہ انہوں نے مل کر عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے لئے 'رجیم چینج' آپریشن کیا ہے۔ وزارت عظمیٰ سے برطرف ہونے کے بعد عمران خان سڑکوں پر آ گئے اور جگہ جگہ جلسے جلوس شروع کر دیے جن میں انہوں نے کھلے الفاظ میں فوج کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ یہیں انہوں نے فوجی جرنیلوں کے اس اعلان کے بعد کہ وہ نیوٹرل ہیں، انہیں بے ضمیر جانوروں سے تشبیہ دے کر ان کی غیر جانبداری کا مذاق اڑایا اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو بار بار بزدل اور غدار پکارتے رہے۔
عمران خان کے حامی جوق در جوق ان کی پکار پر لبیک کہنے نکل پڑے۔ اتنی واضح اور نظر آنے والی مقبولیت، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اوپر تلے مسلسل کامیابیاں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کئی ججوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت دیکھ کر انہوں نے سوچا کہ وہ فوج پر موجودہ پی ڈی ایم حکومت کا ساتھ دینے سے دستبردار ہونے اور فوری انتخابات منعقد کروانے کے لئے دباؤ ڈال کر بازی اپنے حق میں پلٹ سکتے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں نے اس بات پر بھی جوا کھیلا کہ وہ عمران خان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر آرمی چیف جنرل باجوہ اور باقی فوجی قیادت کے مابین تقسیم پیدا کر کے اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ حکمت عملی اس وقت الٹی پڑ گئی جب اگست 2022 میں عمران خان کے ایک قریبی ساتھی کو اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا جب ایک براہ راست ٹیلی وژن شو میں انہوں نے فوج کے رینک اینڈ فائلز کو اپنے اعلیٰ افسران کا حکم ماننے سے انکار کرنے کے لئے اکسانے کی کوشش کی تھی۔
عمران خان نے فوج کے ساتھ تصادم کو ہوا دینے کی مہم جاری رکھی اور جنرل باجوہ کی جگہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کے لئے اسلام آباد کی جانب مارچ کی دھمکی دے دی۔ عمران خان اور جنرل عاصم منیر میں جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب 2019 میں جنرل عاصم منیر آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اب دونوں کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ دسمبر 2022 میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے۔ بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہوں نے اس حملے کا الزام آئی ایس آئی پر لگا دیا۔
اسی کھلی جارحیت نے 9 مئی کے واقعات کو جنم دیا۔ کرپشن کے الزامات کے تحت عمران خان کی گرفتاری پر مشتعل ہو کر اور اس خوف سے کہ حراست میں کہیں انہیں جان سے نہ مار دیا جائے، ان کے پیروکار راولپنڈی میں واقع جی ایچ کیو سمیت کئی فوجی تنصیبات اور دیگر ہائی پروفائل اہداف پر حملہ آور ہو گئے۔ ان واقعات کے بعد ایسا لگا جیسے فوج ظاہری طور پر ہل کر رہ گئی ہے۔
فوج کی یکسوئی
کسی بھی ملک میں طاقت پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ فوج متحد ہو۔ 9 مئی کے احتجاج اور ہنگاموں کے دوران پاکستانی فوج کے بیرکوں ہی میں رہنے کے فیصلے نے قابل فہم انداز میں بعض مبصرین کو یہ دلیل دینے کا موقع فراہم کیا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت تذبذب کا شکار تھی کہ انہیں اس صورت حال میں کیا کرنا چاہئیے۔ ہو سکتا ہے جنرل عاصم منیر کو یہ خدشہ ہو کہ مظاہرین کے خلاف جلد بازی پر مبنی کوئی اقدام فوج میں موجود ایسے کمانڈروں کی جانب سے بغاوت کا سبب بن سکتا ہے جو عمران خان کی حمایت کرتے ہیں۔ مذکورہ خدشے کو اس انکشاف سے مزید تقویت ملتی ہے کہ چند اہم فوجی مقامات کی حفاظت کرنے والے سپاہیوں کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے سخت حفاظتی حصار میں قائم آرمی ہیڈ کوارٹر کی حدود کو بھی توڑ دیا اور زبردستی اس کے دروازے کھول دیے۔ یہ غیر مسلح شہریوں کی طرف سے حدود کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کے بارے میں ابتدائی تاثر یہی قائم ہوا جیسے فوج نے خود اس کی اجازت دی تھی۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان نے فوج کو ایک منفرد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ عمران خان جو کبھی فوج کی پراکسی تھے، اب انتقام میں آ کر بے قابو ہو چکے ہیں اور آرمی چیف کے خلاف فوج کی صفوں میں اختلافات پیدا کر کے ادارے کے طور پر قائم فوج کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کو غالباً اس بات کی بھی تشویش ہے کہ روایتی طور پر فوج کے حامی شہری متوسط طبقے کے سب سے بڑے مرکز پنجاب میں عمران خان کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور فوج میں بھرتی کا اہم مرکز ہے۔ عمران خان کو بااثر ریٹائرڈ فوجی افسران کے گروہوں کی جانب سے بھی خاصی حمایت حاصل ہے جنہوں نے اپنے ارکان کو متحرک کر رکھا ہے کہ وہ فوج کی موجودہ اعلیٰ قیادت کو سویلین حکومت کی مخالفت پر آمادہ کریں۔ تاریخی شواہد پاک فوج بالخصوص جونیئر افسران میں عمران خان کی مستقل مقبولیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جنہیں روایتی سیاسی طبقے کی مبینہ بدعنوانی اور کرپشن کے بارے میں پچھلی ایک دہائی سے مسلسل پروپیگنڈے اور غلط معلومات پر مبنی مہم کے ذریعے متاثر کیا گیا اور جن کے سامنے عمران خان کو ایک ایسے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا جو کسی جادو کی مدد سے پاکستان کے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔
لیکن عمران خان کے لیے یہ ہمدردیاں اتنی مضبوط نہیں ہیں کہ فوج کے اندر ایک حقیقی تقسیم پیدا کر سکیں۔ فوج اب بھی متحد ہے، اپنی اعلیٰ قیادت کی ہدایات پر عمل پیرا ہے اور عمران خان کی جانب سے درپیش چیلنج کو ختم کرنے پر یکسو ہو چکی ہے۔ جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تو یہ غیر متزلزل نظر آیا اور فوج کے دباؤ میں آ کر پی ٹی آئی ڈھے گئی۔ اگرچہ عمران خان کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا تھا اور وہ اب آزاد ہیں لیکن ان کی جماعت کی تقریباً ساری قیادت کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور تب سے اب تک اس کے بہت سارے رہنما سیاست چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار پارٹی کارکنوں کو سنگین الزامات کا سامنا ہے جن میں آتش زنی اور دہشت گردی شامل ہیں اور ان میں سے اکثر کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں گے جو جرم کا زبردستی اعتراف کروانے اور سخت سزائیں دینے کے حوالے سے بدنام ہیں۔
عمران خان کی خام خیالی کہ وہ فوج کو توڑ سکتے ہیں
دوراندیشی کے حوالے سے دیکھیں تو عمران خان اور پی ٹی آئی کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ فوج کو توڑ سکتے ہیں جس کی تاریخ، کلچر اور ڈھانچے نے اسے غیر معمولی طور پر مستحکم ادارہ بنا دیا ہے اور پاکستانی ریاست اور معاشرے میں اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگ نے فوج کو منظم ادارہ بنایا ہے اور پاکستان کے عسکری طور پر برتر پڑوسی ملک کی جانب سے محسوس ہونے والے خطرے نے متحد رہنے میں فوج کو مدد فراہم کی ہے۔ سپاہیوں کو حکم کی تعمیل، ہم آہنگی اور سرپرستی کے سخت احساس والے ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے جس سے فوج کی ہم آہنگی کو تقویت ملتی ہے۔ فوج میں ملازمت بہت سے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں کو سماجی لحاظ سے اوپر کی طرف اٹھنے کا موقع دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو فوج کے اندر ممکنہ اختلاف کو ختم کر سکتا ہے۔ فوج اپنے تمام سپاہیوں کو بطور ادارہ پوری زندگی کے لئے فلاحی نظام مہیا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمینوں اور ریٹائرمنٹ کے بعد اہم عہدوں پر تعیناتیوں جیسی سہولتیں اور شاندار مراعات بھی دیتی ہے۔ فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے نتیجے میں پنشن اور دیگر فوائد کے نقصان کے علاوہ سخت سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
آخر میں پاکستانی فوج کی 11 کورز کے ذریعے سے تنظیم ممکنہ اختلاف کرنے والوں کے لئے کوآرڈی نیشن کا مسئلہ پیدا کرتی ہے۔ ہر کور کی سربراہی ایک لیفٹیننٹ جنرل کے پاس ہوتی ہے جس کی کمان میں آنے والے فوجی دستوں کا مکمل آپریشنل کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اندرونی طور پر کسی ممکنہ بغاوت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ مختلف کورز کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہو۔ اگر کوئی ایک بھی کور کمانڈر کسی ممکنہ بغاوت کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو فوج باآسانی اندرونی طور پر جنگ کا شکار ہو سکتی ہے۔ جونیئر افسران کی جانب سے ماضی میں 1970، 1980 اور 1990 کی دہائی کے دوران فوج میں بغاوت کی کوششیں کی گئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی بغاوت کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ سینیئر فوجی کمانڈر اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ وفادار تھے۔ یہ زیادہ حیرانگی کی بات نہیں کہ پاکستان میں 1958، 1977 اور 1999 کی فوجی بغاوتیں صرف اس وجہ سے کامیاب ہوئیں کیونکہ ان کی سربراہی بذات خود آرمی چیف کر رہے تھے۔
پاکستانی فوجی افسران میں ادارہ جاتی پالیسیوں اور ذاتی سیاسی وابستگیوں سے متعلق اختلاف رائے ہو سکتا ہے اور وہ مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ منسلک بھی ہو سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی تنصیبات اور قومی خدمات اور قربانیوں کی یادگار فوجی علامتوں پر براہ راست حملوں نے خطرے کو گھر کے بہت نزدیک پہنچا دیا ہے۔ اگرچہ مظاہروں کے دوران فوج اپنی بیرکوں ہی میں رہی تاکہ کسی شہری ہلاکت کا خدشہ نہ پیدا ہو تاہم ان حملوں نے جنرل عاصم منیر کو اپنی کمان مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے اس دعوے کے اردگرد فوجیوں کو جمع کر لیا کہ 9 مئی کے واقعات قومی سانحہ تھے جن کا سخت اور فیصلہ کن جواب دیا جانا چاہئیے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے نے فوج کے حامی صحافیوں، سوشل میڈیا پر چلائی گئی مہموں اور فوجیوں کی قربانیوں کو اجاگر کرنے والے حب الوطنی کے نغموں کے ذریعے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے وسیع تر عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کمر کس لی۔
جمہوریت کا چہرہ مہرہ
ایک جانب جہاں لگتا ہے کہ فوج نے اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پا لیا ہے، دوسری جانب پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما بری طرح تقسیم کے شکار ہیں۔ جب عمران خان اقتدار میں تھے تو پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک متحدہ اپوزیشن قائم کی تھی جو ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کی مخالف تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہی تاہم موجودہ حکومت میں وہ پی ڈی ایم کے ساتھ اتحادی جماعت کے طور پر شامل ہے۔ عمران خان اور ان کے فوجی شراکت داروں نے بدعنوانی کے کمزور الزامات پر کئی اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں ڈالا تھا۔ لیکن جب عمران خان اور جنرل باجوہ کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو گئی تو جمہوریت پسندوں نے ان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی وار کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔
اس وقت سے عمران خان کے سویلین مخالفین نے پی ٹی آئی کی مخالف ہو چکی فوج کا ساتھ دیا ہے اور اس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ پاکستان کے سنگین معاشی بحران اور قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر جو کہ جزوی طور پر عمران خان ہی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، ان کے سیاسی امکانات مزید کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن جو اب اتحادی حکومت کی قیادت کر رہی ہے، عمران خان کے اثر کو زائل کرنے کے لئے آگے آ چکی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت نے مسلم لیگ ن کے روایتی گڑھ پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ 9 مئی کے ہنگاموں کے بعد سے حکومت نے فوج کے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے فوجی جبر کو سیاسی سہارا فراہم کیا ہے اور یہاں تک کہ دنگا فساد کرنے والوں اور انہیں اکسانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی منظوری بھی دے دی ہے جو واضح طور پر ہر پاکستانی شہری کے اس آئینی حق کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت انہیں فری ٹرائل کا حق ملنا چاہئیے اور ساتھ ہی ساتھ یہ عالمی قانون کی بھی نفی ہے۔
پاکستان ایک ایسے مستقبل کی جانب گامزن دکھائی دیتا ہے جو مضحکہ خیز انداز میں اس کے اپنے ماضی کی نقالی کرتا ہے۔
گہرے مفادات کے اس کھیل میں اصل شکست پاکستان کی کمزور جمہوریت کو ہوئی ہے۔ ایک جانب جہاں فوج کی جانب سے پی ٹی آئی کو ختم کرنے کے لیے ریاستی جبر کی بھرپور طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے وہیں عمران خان کبھی جرنیلوں کے خلاف لعن طعن پر مبنی تقریریں کرتے ہیں اور کبھی پلٹا کھا کر اقتدار میں واپسی کے لئے فضول انداز میں ان سے مدد مانگنے لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوج کی مدد کے بغیر وہ حکومت میں نہیں آ سکتے۔ عمران خان اور ان کے سویلین مخالفین ایک ایسی تقسیم کے بعد الگ ہو گئے ہیں جو بظاہر ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان پی ڈی ایم حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے آرمی چیف کو ان کا مخالف بنا دیا ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس سے حریف سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات کے شیڈول پر عمران خان کے ساتھ معاملات طے کرنا ناممکن ہو گیا۔
عمران خان 2022 میں حکومت سے اپنی بے دخلی کو جو کہ مکمل طور پر آئینی بنیادوں پر ہوئی تھی، جمہوریت کے خاتمے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا واحد مطالبہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے مگر ان کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے جمہوریت کے حامی نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کے طور پر وہ اختلاف رائے اور مخالفت کو بہت کم برداشت کرتے تھے، پارلیمانی اصولوں اور طریقہ کار کی سرا سر توہین کرتے تھے اور یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کے وفاقی پارلیمانی طرز حکومت کو مرکزی صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا جس کی سربراہی ان کے اپنے ہاتھ میں ہو گی۔ انہوں نے اپنا سارا سیاسی کیریئر ہی اپنے سیاسی مخالفین کو ذلیل بدمعاشوں کے طور پر بدنام کرنے سے بنایا ہے اور یہ کسی ایسے انسان کی عادت نہیں ہو سکتی جو سیاسی اختلافات کو ختم کرنے اور ملک کو تباہ کرنے والے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے تیار ہو۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے بار ہا عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور فوج کے ساتھ قلیل مدتی اور مفادات پر مبنی سمجھوتے کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان نے اسی وقت جمہوری ترقی کی ہے جب اس کے سیاست دانوں نے آئین کے دفاع میں متحد ہو کر فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر ملک کو مستقل فوجی کنٹرول سے آزاد کرانا ہے تو جرنیلوں کو بیرکوں میں واپس جانے پر آمادہ کرنا پڑے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جمہوری اصولوں کی پاس داری کرتے ہوتے سیاست دانوں کو لمبی اننگز کھیلنا ہو گی۔
عمران خان کی پارٹی مکمل طور پر ڈوبی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فوج کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ختم ہو گئی ہے اور خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیرو بنا کر پیش کرنے کی ان کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں کیونکہ ان کی پارٹی تیزی سے ٹوٹ رہی ہے۔ عدلیہ میں موجود ان کے وفادار انہیں بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن عدالتیں ایک پرعزم فوج کے سامنے کسی صورت نہیں ٹک سکتیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت کے حامی پی ڈی ایم اتحاد نے فوج کے ہاتھوں عمران خان کی تباہی پر بہت گرمجوشی کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ بحران سے پہلے بھی پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل کچھ خاص روشن نہیں تھا۔ لیکن سویلین حکومت کی فوج کے ساتھ ملی بھگت نے اس کمزور امید کو سرے سے ختم کر کے رکھ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کبھی مضبوط ہو پائے گی۔ فی الحال پاکستان ایک ایسے مستقبل کی طرف گامزن دکھائی دے رہا ہے جو افسوس ناک حد تک اس کے اپنے ماضی کی نقالی کرتا ہے، جس میں جمہوریت فوجی تسلط کے لیے محض ایک نمائشی چہرے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
عاقل شاہ کا یہ مضمون امریکی میگزین Foreign Affairs میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔