'حقائق بتا رہے ہیں کہ حکومت کرونا وائرس کے مریضوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے'

'حقائق بتا رہے ہیں کہ حکومت کرونا وائرس کے مریضوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے'
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بالآخر مسلم لیگ نواز رہنما خواجہ محمد آصف نے وہ سوالات اٹھا دیے جن کے اوپر گذشتہ کئی ہفتوں سے سرگوشیوں میں بات چل رہی تھی۔ خواجہ آصف نے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد اور اس سے انتقال کر جانے والے افراد کے حوالے سے دیے گئے حکومتی اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کو حقائق سے آگاہ نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا متاثرین کی تعداد 40 ہزار سے کم ہے لیکن در حقیقت یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ بلوچستان کی سیکرٹری صحت اس خدشے کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں کہ صوبے میں لاکھوں کی تعداد میں مشتبہ کیسز ہیں اور اگر باقی صوبوں میں بھی صورتحال یہی ہے تو ان کیسز کی اصل تعداد کئی لاکھ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اپنی غلطیوں، غلط بیانیوں اور کنفیوژن سے ملک کو ایک بہت بڑے بحران سے دو چار کرنے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
انہوں نے اس موقع پر یہ بھی الزام لگایا کہ چینی، آٹا اور دوائیوں کے بحرانوں سے اربوں روپے بنانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا ایک معاونِ خصوصی امریکہ میں روزولیٹ ہوٹل بیچنے میں مصروف ہے جو کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے قیمتی ترین اثاثوں میں سے ایک ہے۔
یاد رہے کہ نیا دور پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر حضرات پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ حکومت کرونا وائرس سے ہونے والی کم از کم لاہور میں 20 ہلاکتوں کو چھپا چکے ہیں اور اس سے بہت بڑا کور اپ راولپنڈی اور دیگر چھوٹے شہروں میں کیا جا رہا ہے جہاں میڈیا کا کوئی فوکس نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب کے چھوٹے شہروں سے روزانہ ڈاکٹرز کی جانب سے پیغامات موصول ہوتے ہیں اور حکومت سے ان کے حوالے سے اقدامات لینے کو بھی کہا جاتا ہے لیکن حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چند روز قبل ملتان کے ڈاکٹرز کا احتجاج بھی اسی لئے سامنے آیا تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں مشتبہ کیسز کو چھپایا جا رہا تھا اور ڈاکٹرز کی زندگیاں داؤ پر لگائی جا رہی تھیں۔

جمعرات کو نیا دور سے بات کرتے ہوئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے بتایا تھا کہ پنجاب میں 8 سے 10 مشتبہ مریضوں کی روزانہ اموات ہو رہی ہیں لیکن ان میں علامات کے باوجود ٹیسٹ نہیں کروائے جاتے اور جب یہ انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی موت کی وجہ کوئی اور بیماری لکھ دی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کے پاس ایسے مریضوں کا کوئی مستند ڈیٹا نہیں ہے جو کہ صوبہ میں کرونا کے ایسے مشتبہ مریضوں کی تعداد کے بارے میں بتاتا ہو جو کرونا سے ملتی جلتی علامات کے ساتھ ہسپتال آئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا یا پھر انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
میو اسپتال میں موجود ڈاکٹر ذرائع نے بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے 8 سے 10 ایسے مشتبہ مریض وصول کر رہے ہیں جو کہ سانس پھولنے کی شکایت سے آتے ہیں اور کچھ دیر میں ان میں سے بیشتر کا انتقال ہو جاتا ہے جب کہ ان کا کرونا ٹیسٹ کرائے بغیر ان کی موت کی وجہ انکی پہلے سے جاری بیماریاں ظاہر کر دی جاتی ہیں۔ یہی حال پنجاب کے دیگر بڑے چھوٹے ہسپتالوں کا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے پنجاب میں اس وقت کرونا سے کون کون مر رہا ہے اس کا جامع اور مستند ڈیٹا حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے متعلق حکومتی ڈیٹا مشکوک ہے۔ ذرائع نے نیا دور سے گفتگو میں کہا کہ جب تک کوئی بھی انتظامیہ مشکوک مریضوں کے ٹیسٹ اور ان کا ڈیٹا مرتب نہیں کرے گی صوبے میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی اصل تعداد سامنے نہیں آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے مشکوک کیسز جن کی ہسپتال پہنچنے سے پہلے یا کچھ دیر بعد انتقال ہوجاتا ہے ان کے کرونا ٹیسٹ کرا کر ڈیٹا مرتب کیا جائے تو آپ دیکھیں گے صوبے میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح اٹلی اور امریکا جیسی ہی ہوگی۔
اس حوالے سے جب گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب سے وابستہ ایک سینئر ڈاکٹر سے بات کی گئی تو انہوں نے حکومت کے اعتاب کےخدشے کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مشکوک افراد کے ٹیسٹ نہ ہونے اور ڈیٹا کی عدم دستیابی نے کرونا کے خلاف جنگ کے اس تمام عمل کو مشکوک بنایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں میڈیا کا سارا فوکس لاہور کے اسپتالوں پر ہے۔ جب کہ ملتان، سرگودھا، راولپنڈی، ڈی جی خان ڈویژنز میں تو صورتحال مزید خوفناک ہے۔ جہاں انہوں نے بتایا کہ روز ڈاکٹرز کے درجنوں میسجز ملتے ہیں جس میں زمینی حقائق بتا کر ڈاکٹر تنظیموں سے مدد طلب کی جاتی ہے لیکن کچھ نہیں ہو رہا ہم جب بات کرتے ہیں تو حکومت ہم پر ہی سیاست کا الزام لگا کر ہمارے مطالبات کو متنازع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

یاد رہے کہ چین جہاں کرونا وائرس کی یہ وبا پھوٹی تھی وہاں بھی چینی حکام نے وبا پر قابو پانے کے کچھ عرصہ بعد ایسی اموات کا انکشاف کیا تھا جو حکومتی ڈیٹا میں ظاہر نہیں کی گئی تھیں جس کے بعد وہان میں ہونے والی ان اموات کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔