یہ مضمون 17 ستمبر 2023 کو عدالت عظمیٰ میں پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری کے موقع پر عوام کی جانب سے کھلے خط کے طور پر لکھا گیا ہے۔
انصاف اور معلومات تک رسائی وہ غیر متبادل اور ناقابلِ تنسیخ حقوق ہیں جنہیں آئینِ پاکستان یقینی بناتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہر شہری کو معلومات تک آزادانہ رسائی اور تنازعات کے فوری اور منصفانہ حل کے لیے غیر جانبدار عدالت یا ٹربیونل تک رسائی کا حق حاصل ہو گا۔ سائلین کو انصاف کی فراہمی صرف اُسی صورت میں یقینی بنائی جا سکتی ہے جب حقوق کے تعین اور تنازعات کے تصفیے کے لیے مؤثر نظام موجود ہو۔ تاہم ہمارا موجودہ نظام عدل دولت مندوں کی حمایت کرتا ہے۔ دولت مند طبقے انصاف کو خرید بھی سکتے ہیں اور اس میں تاخیر بھی کرا سکتے ہیں۔ شہری کئی عشروں تک مقدمات کے فیصلوں کے منتظر رہتے ہیں اور ان کی کہیں دادرسی نہیں ہوتی۔
'عدلیہ کی آزادی' یا 'انصاف سائل کے دروازے پر' جیسے نعرے پاکستان میں سنائی دیتے رہے ہیں لیکن یہ صرف کھوکھلے نعرے ہی ثابت ہوئے، ان کا عملی اظہار معاشرے میں دکھائی نہیں دیتا۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009، جس کا بہت شہرہ رہا، انصاف کی فراہمی کے لیے مؤثر نظام وضع کرنے میں کامیاب رہی اور نا ہی نظام میں موجود خامیوں کو دورکرنے کے لیے مجوزہ اصلاحات بارآور ثابت ہوئیں۔ اس پالیسی کو متعارف کرائے جانے کے وقت سے لے کر اب تک عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور اور غریب افراد کو انصاف کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ وہ وکلا کو بھاری فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ فیصلوں کے برس ہا برس تک منتظر رہتے ہیں۔ بسا اوقات انصاف کا طالب خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے لیکن مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ قانون کے لمبے ہاتھ طاقتور افراد کی گردن تک نہیں پہنچ پاتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض طاقتور حلقوں کے ذاتی مفادات عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیوں اور اصلاحات کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ان کے مفاد پر زک پڑتی ہے۔ اس استحصالی نظام کا حصہ بنتے ہوئے بنچ اور بار، دونوں اس نظام کی اصلاح نہیں چاہتے۔
درحقیقت عام آدمی کے مفاد سے لاتعلق گھسے پٹے اور دولت مند طبقے کے حقوق کے محافظ اس نظام میں عدلیہ اور قانون ساز اداروں کی نااہلی مسائل کی اصل ذمہ دار ہے۔ ملک کی کوئی سیاسی جماعت اس کی بہتری کا ایجنڈا نہیں رکھتی اور نا ہی کبھی اس مسئلے کو انتخابی ایشو بنایا گیا۔ اس کے برعکس جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست دانوں، اعلیٰ افسروں اور بیوروکریسی پر مشتمل حکمران اشرافیہ اس بات پر متحد دکھائی دیتی ہے کہ اصل طاقت اُن کے ہاتھ میں رہے اور نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے پائے۔
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو یہ نظام بے لاگ احتساب کے بغیر اپنی مثبت فعالیت کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا عمل اُن سے شروع ہو جو دوسروں کا احتساب کرتے ہیں۔ انصاف ایسا ہو جو ہوتا ہوا دکھائی بھی دے، چنانچہ منصف حضرات اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ جو فیصلے کریں، اُن پر عمل بھی ہو۔
عوام کے مسائل اگر بیانات اور نعروں سے حل ہو سکتے تو اب تک پاکستان ایک مثالی ریاست بن چکا ہوتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام کی اکثریت مایوسی سے کبھی سیاست دانوں کی طرف دیکھتی ہے تو کبھی جج حضرات کی طرف اور کبھی جرنیلوں کی طرف۔ عوام کو مایوسی کی دلدل سے نکالتے ہوئے ملک کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے تمام عناصر کو کڑے احتساب سے گزارا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اس کا آغاز ججز، جرنیلوں، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں سے کیا جائے۔ وہ اشرافیہ جو ٹیکس ادا کرتی ہے اور نا ہی اپنے حقیقی اثاثے ظاہر کرتی ہے، اس کا احتساب صرف عدلیہ ہی کر سکتی ہے مگر ضروری ہے کہ ججز سب سے پہلے خود کو خود احتسابی کے عمل سے گزاریں۔ آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح باقی ججز بھی اپنے اثاثوں کی تفصیل ازخود سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگا دیں۔
جرنیلوں، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں نے اپنے رشتہ داروں کے ناموں سے بھی بھاری اثاثے بنا رکھے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ اگر انتخابی عمل ان افراد کا احتساب نہ کر سکے تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے۔ ملک کے معروضی حالات میں جمہوریت سے مایوسی انتہائی خطرناک ثابت ہو گی کیونکہ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو انتہا پسند طاقتیں پُر کرنے کے لیے موجود ہوں گی۔ ضروری ہے کہ سول سوسائٹی اور میڈیا آنے والی پارلیمنٹ کو مجبور کر دیں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت تمام معلومات تک شہریوں کی رسائی کو یقینی بنائے تا کہ شہری انصاف ہوتا دیکھ سکیں۔ صرف اس طرح ہی ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو گا۔
آج کے پاکستان میں اگر ججز، جرنیلوں، اعلیٰ سرکاری افسروں اور عوامی رہنمائوں کا اثاثہ جات چھپانے کی پاداش میں کڑا احتساب ہونے لگے تو یقین جانیں کہ معاملات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو جائیں گے۔ عوام اور میڈیا کو مطالبہ کرنا چاہئیے کہ اُنہیں اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے اثاثہ جات کا علم ہو۔ اُنہیں پتہ ہونا چاہئیے کہ کس حکومت نے کس کو قیمتی پلاٹ دیے ہیں اور اس کی وجہ سے کیا فائدہ اٹھایا ہے۔ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ پرکشش پلاٹوں پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 13(11) کے تحت انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جو اب تک ادا نہیں کیا گیا۔
آئین کا آرٹیکل 19 اے؛
'قانون کے مطابق عائد کردہ پابندیوں اور ضوابط کے تابعی ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہو گا'۔
آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے مطابق ہر شہری کو بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ سرکاری اور عوامی عہدے رکھنے والے افراد کے اثاثے اور ادا کردہ ٹیکس کی تفصیل سے آگاہ ہو سکے۔ اس حق کو نا تو عدالت اور نا ہی آئین کے نیچے بنایا گیا کوئی قانون محدود کر سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ریاست کے چاروں ستون خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کر دیں۔ یہ صرف اُس صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے پاس معلومات حاصل کرنے کا حق ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرآئین کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں جاری بدعنوانی اور دیگر برائیوں کے آگے بند باندھنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کی غیر موجودگی میں خاندانی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی پروان چڑھے گی اور عوامی مفاد کا خون ہوتا رہے گا۔
اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ ہم اصلاحات کا جامع نظام اپنائیں اور ہر سطح پر احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ جج حضرات کے احتساب کی روایت بھی قائم ہونی چاہئیے۔ اگر وہ بدعنوانی کے مرتکب پائے جائیں تو ان کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور مشہور شاعر جیفری چوسر کے اس شعر کو یاد رکھا جائے؛
'اگر سونے کو زنگ لگ جائے تو لوہے کا کیا بنے گا'۔
جمہوریت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وقتی اور بے ربط اقدامات کے بجائے جامع اصلاحات کو آگے بڑھایا جائے اور انصاف کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔ ہنگامی اقدامات کی پالیسی ہمارا پہلے ہی بہت نقصان کر چکی ہے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ اکثر کیسز میں خود ریاست ہی عوام کا استحصال کرتی ہے حالانکہ اُسے عوام کی دادرسی کرنا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ریاست کے قیام کا جواز کمزور ہو جاتا ہے۔