کرونا وائرس - میرا تجربہ کیسا رہا؟

کرونا وائرس - میرا تجربہ کیسا رہا؟
میں آج کل کام کے سلسلے میں اپنے گھر والوں سے دور ایک فلیٹ میں رہ رہا ہوں۔ تقریباً پندرہ دن قبل مجھے ہلکے سردرد اور زکام جیسی علامات کا احساس ہوا، لیکن ناک سے پانی نہیں بہہ رہا تھا۔ اس سے مجھے شک ہوا کہ کسی جگہ سے کرونا وائرس لگ چکا ہے۔ اس سے ہفتہ قبل میں ایک ایسی جگہ گیا تھا جہاں چین سے آئے کچھ افراد موجود تھے۔

موجودہ کرونا وائرس کا نام COVID-19 رکھا گیا ہے۔ اس کا تعلق وائرس کی نسل ’کرونا‘ سے ہے، جو چمگادڑ کی ایک قسم پر پایا جاتا ہے، اور اس نسل میں ایسا ارتقا ہو چکا ہے کہ کرونا وائرس اس کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ایک طفیلیے کی طرح اس پر رہتا ہے۔

نظریہ ارتقا کے مطابق ہر جاندار کے ڈی این اے میں کچھ عرصے کے بعد تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس سے مختلف قسم کے جاندار بنتے رہتے ہیں۔ جن جانداروں میں ایسی تبدیلیاں ظاہر ہوں جو ان کے ماحول سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، وہ وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔

اگر جینیاتی تبدیلی ماحول سے مطابقت رکھتی ہو تو وہ جاندار افزائش نسل کر کے پھیل جاتا ہے۔

کسی ایک جاندار پر رہنے والے طفیلیے جراثیم دوسرے جانداروں پر بھی جاتے رہتے ہیں اور وہاں ان کے گوشت یا اعضا کے ماحول سے مطابقت نہ رکھنے کی صورت میں مر جاتے ہیں۔

البتہ بعض اوقات کسی جراثیم میں حادثاتی طور پر آنے والی جینیاتی تبدیلی ایسی ہوتی ہے جو اسے کسی اور جاندار کے جسم میں پھلنے پھولنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اس صورت میں وہ جراثیم اس جانور کو منتقل ہو جاتا ہے۔ حادثاتی طور پر آنے والی یہ تبدیلی نئے میزبان کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

2003 میں کرونا وائرس کی ایسی ہی قسم جو چھپکلی پر رہ رہی تھی، تبدیل ہو کر انسان میں رہنے لگ گئی۔ اس نے انسان کے جسم کو نقصان بھی پہنچانا شروع کر دیا۔ اسے ’سارس‘ کا نام دیا گیا۔ 2012 میں بھی ایک کرونا وائرس اونٹ کا پیشاب پینے والے عربوں میں منتقل ہوا، اسے ’میرس‘ کہا گیا۔



موجودہ کرونا وائرس مبینہ طور پر 2019 میں چیونٹی خور کے زکام سے انسان کو منتقل ہوا ہے۔ ممکن ہے یہ کسی لیبارٹری سے حادثاتی طور پر کسی سائنسدان کے جسم پر منتقل ہو گیا ہو، لیکن کسی واضح ثبوت کے بغیر ایسے اندازے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا بھر میں وائرالوجی کی لیبارٹریوں میں مختلف اقسام کے وائرس کو مصنوعی طور پر ارتقا کرایا جا رہا ہے تاکہ کسی ممکنہ وبا کو قبل از وقت سمجھا جا سکے۔ اگرچہ وطن عزیز میں نظریہ ارتقا کو جھوٹ کہنے والے بہت لوگ ہیں، لیکن یہاں بھی لیبارٹریوں میں اس علم پر تحقیق ہو رہی ہے۔

کرونا وائرس انسان کے معدے میں ہضم ہو جاتا ہے لیکن پھیپھڑوں میں زندہ رہتا ہے۔ اس طرح یہ سانس کے ذریعے دوسروں کو لگتا ہے۔

میرا جس محفل میں جانا ہوا تھا وہاں پانچ سو کے قریب شرکا تھے اور مختلف ماہرین نے گفتگو کی تھی۔ کسی بند جگہ پر متعدد افراد کے ایک ساتھ لمبے وقت کے لئے رہنے سے سانس کے ذریعے جراثیم کی منتقلی آسان ہو جاتی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے یہ وائرس کسی اور جگہ سے لگا ہو۔

بہر حال ناک کے اردگرد اور آنکھوں کے پیچھے درد دو دن تک شدید تر ہوتا رہا۔ اس کے ساتھ ٹھوس قسم کا زرد زکام بھی آنے لگا۔ میں نے پہلے ہی ضروری اشیا کی خریداری کر کے خود کو اپنے فلیٹ تک محدود کر لیا تھا اور اپنے قریبی لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیا تاکہ وہ صرف فون پر ہی بات کریں۔

اس کے ساتھ میں نے اپنے کمرے میں پانی کو ابالنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صبح، دوپہر اور شام کو کم از کم ایک لٹر پانی کو بھاپ میں تبدیل کرتا رہا۔ اس سے بلغم کو نکالنے میں آسانی ہوئی۔ اس کے ساتھ انٹرنیٹ پر اس بیماری کے بارے میں آنے والی تازہ تحقیق کو پڑھتا رہا۔

اس تحقیق کے مطابق اپنے مدافعتی نظام کی مدد کے لئے یہ دوائیں کھانا ضروری تھیں، جو پہلے ہی میرے پاس موجود تھیں:

1۔ وٹامن ڈی
2۔ وٹامن بی کمپلیکس
3۔ پیرا سیٹامول
4۔ زنک سپلیمنٹ (یہ ایک دوست سے منگوایا)
5۔ وٹامن سی

ان کے علاوہ آرام کرنا اور لوگوں سے تین فٹ دور رہنا ضروری تھا۔ ماہرین کے مطابق کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والے شخص کیلئے بروفن کا استعمال نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا میں نے درد اور بخار میں کمی کیلئے صرف پیراسیٹامول کھانے پر ہی اکتفا کیا۔

اس وائرس کے باہر چکنائی کی ایک تہہ بھی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ صابن اور کپڑے دھونے والے پاوڈر سے مر جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل ہاتھ دھونے، دانت برش کرنے، کپڑے اور برتن دھونے، نیز کمرے کو صاف رکھنے کی ضرورت تھی۔ حالت خراب ہونے سے پہلے میں نے تمام کپڑے دھو لیے۔



تقریباً تین دن کے بعد میرے گلے میں تکلیف شروع ہوئی۔ دو دن مزید گزرے اور کھانسی شروع ہو گئی۔ وائرس اب پھیپھڑوں میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ جسم میں درد شروع ہو گیا۔ ٹانگوں میں چلنے کی سکت نہ رہی۔ اس کی وجہ جسم کے مدافعتی نظام کا ردعمل تھا۔

کچھ جرمن ماہرین کی تحقیق کے مطابق جب وائرس آخری درجے میں داخل ہو جائے تو پھر وہ دوسروں کو منتقل نہیں ہوتا۔ دوسرے انسانوں کو منتقل ہونے کا عرصہ وہی ہے جب تک مریض کی حالت ٹھیک ہوتی ہے۔

پھیپھڑوں میں منتقل ہونے اور مدافعتی نظام کے حملے کا مرحلہ ہی سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس دوران مدافعتی نظام ضرورت سے زیادہ ردعمل دے کر پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

جسم میں درد اور کھانسی کے ساتھ مجھے ہلکا سا بخار بھی ہونے لگا۔ البتہ صبح شام پیرا سیٹامول کی دو گولیاں کھانے سے بخار ختم ہو جاتا۔ اس دوران میں نے پھیپھڑوں سے نکلنے والے بلغم پر نظر رکھی۔ اگر اس میں خون آنے لگ جاتا تو اس کا مطلب تھا کہ مجھے اسپتال جانے اور آکسیجن لگوانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

مجھے سانس لینے میں دشواری نہیں ہوئی۔ میں کبھی کبھار پھیپھڑوں کو بھر کر سانس لیتا تھا تاکہ اگر اس میں کوئی مشکل ہے تو پتہ چل جائے۔ اگرچہ ایسا کرنے پر پھیپھڑے تھوڑا بوجھل معلوم ہوتے تھے لیکن کوئی درد نہ ہوتا تھا۔ کھانسنے سے بلغم بھی نکل رہا تھی اور کمرے میں حبس بھی بنا رکھی تھی۔

اس دوران میں گوشت کا سالن کھاتا رہا۔ فریزر میں گوشت پڑا تھا اور اس کو شروع میں سبزیوں کے ساتھ اور پھر آلو کے ساتھ پکا کر کھایا۔ فریزر میں رکھنے سے پہلے گوشت کو دھو لیا تھا، اور نکالنے کے بعد اسے نہیں دھوتا تھا تاکہ اس سے غذائیت خارج نہ ہو۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پانی کی بہت ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ نیم گرم پانی میں ہلکا نمک ملا کر پیتا رہا۔ سبز چائے بھی تھوڑا نمک ملا کر پیتا رہا۔

میں نے اسپتال جانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، اور جہاں تک آئی سی یو کی مدد کا تعلق ہے تو وہ سانس تیز ہونے کی صورت میں ضروری ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اسپتال میں یہ مرض کسی بوڑھے کو منتقل کر کے اپنے ضمیر پر بوجھ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ تیسرا یہ کہ اسپتال میں کھانے، بھاپ اور صفائی کا شاید وہ انتظام نہ ہو سکتا جو میں خود کر رہا تھا۔

جسم میں شدید درد تین دن تک رہا، اس کے بعد کم ہونے لگ گیا اور بخار ختم ہو گیا۔ اب میرے جسم کا درد تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن کبھی کبھار کھانسی آ جاتی ہے۔

اس دوران میں صرف کوڑا پھینکنے کی غرض سے باہر نکلا اور اس دوران بھی لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کی، منہ پر مفلر کیے رکھا اور دستانے استعمال کیے۔

اب طبیعت ٹھیک ہوئی تو فرش، دروازوں اور فریج کے کنڈے، برتن، موبائل فون، ٹونٹیوں، غسل خانے، ٹوائلٹ سمیت جہاں وائرس ہونے کا خطرہ ہے، ان کو صاف کیا ہے۔ موبائل فون پر صابن استعمال نہیں ہو سکتا لیکن اسے ٹشو پیپر پر جیل یا ایتھانول لگا کر صاف کیا جا سکتا ہے۔



گھر والوں سے روزانہ بات ہوتی رہی۔ انہوں نے مجھے مختلف دعائیں اور سورتیں پڑھنے کی نصیحت کی لیکن میں نے ان کی اس نصیحت پر کان نہیں دھرے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ آج تک کسی وبا کا سامنا عبادت یا دم وغیرہ سے نہیں کیا جا سکا ہے۔ میرے لئے مذہب میری ثقافت کا حصہ ہے، علم نہیں۔ جسے اپنا مدافعتی نظام یا میڈیکل سائنس موت سے نہ بچا سکے، اسے کوئی موت سے نہیں بچا سکتا۔

دعائیں کرنے سے یہ نقصان بھی ہو سکتا تھا کہ مجھے ہر وقت ان دعاؤں کے قبول نہ ہونے کا دھڑکا لگا رہتا، اور ظاہر سی بات ہے کہ اس بیماری سے لڑنے کے دوران اس قسم کی پریشانی نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی۔ نیز اگر یہ دعائیں قبول نہ ہوتیں تو میرا یا میرے قریبی افراد کا یقین مذہب سے اٹھ سکتا تھا، جب کہ مذہب کا تو شفا دینے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔


یاد رہے کہ کرونا وائرس وضو کرنے سے نہیں مرتا، ہاتھوں اور منہ کو صابن سے دھوئے بغیر ان کو اس وائرس سے پاک کرنا ممکن نہیں ہے۔ 



جب خانہ کعبہ سمیت دوسرے مذہبی مقامات کو عام لوگوں کے لئے بند کیا گیا تو میں منتظمین کے اس اقدام کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ اسلام اور امت مسلمہ کو خطرے سے بچانے کے لئے ایسے اقدامات بہت ضروری ہیں، ورنہ یہ وبا پھیل کر معاشی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔

اسی طرح میں نے کسی قسم کے دیسی حکیموں کے ٹوٹکوں پر بھی اعتبار نہ کیا۔ اس نئے ارتقا یافتہ جراثیم کے مقابلے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنانے، اچھی غذا کھانے اور سائنسی تحقیق کے سوا انسانیت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔