تبدیلی اور ندامت

تبدیلی اور ندامت
پاکستان میں جسے لوگ تبدیلی کہہ رہے تھے اس تبدیلی کو آئے چھ ماہ سے زاٸد عرصہ ہوچکا ہے۔ دراصل ہم جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ عموماً مثبت تبدیلی ہوتی ہے جو ہماری زندگی میں براہ راست یا بالواسطہ آسانی یا خوشی کا باعث بنتی ہے۔

سچ پوچھیں تو میں نے ابھی تک اس تبدیلی کو دیکھنے یا محسوس کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ میری نظر میں تبدیلی کو دیکھنے کی یا ڈھونڈنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تبدیلی خود بخود محسوس ہونے لگتی ہے چاہے وہ نظام کی ہو رویے کی ہو یا موسم کی۔ الله نے انسان کو اتنی عقل اور صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلی کو خود محسوس کر سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے اس کے لئے کسی خاص کوشش کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے اور نہ تبدیلی کے آنے کا پتہ دینے کے لئے کسی میڈیا کی خبروں کی ضرورت پڑنی چاہیے اور نہ ہی میرے یا کسی اور کے بلاگز، تجزیے و تبصرے وغیرہ کی۔

رپورٹنگ مثبت ہو ہی نہیں سکتی

میری نظر میں تجزیہ نگار اور میڈیا کے صحافی زیادہ تر جو خبریں اور تجزیے پیش کرتے ہیں وہ منفی تبدیلی سے متعلق ہوتے ہیں اور کسی حد تک ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ وہ یا تو کسی رونما ہونے والی مثبت تبدیلی سے ہماری توجہ ہٹا دیتے ہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ اس طرف توجہ دلا رہے ہوتے ہیں جس جگہ تبدیلی نہیں آ رہی ہوتی یا جمود طاری ہوتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رپورٹنگ کبھی مثبت ہو ہی نہیں سکتی اور تبدیلی محسوس کرنے کے لئے ہمیں میڈیا کی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ مثبت تبدیلی سے نظریں چرانا چاہیں تو میڈیا اس کام میں آسانی ضرور پیدا کر سکتا ہے کیونکہ آپ کچھ بھی سمجھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اہم خبر زیادہ تر منفی ہی ہوا کرتی ہے، مثبت صرف اشتہار ہوتے ہیں جس کی آمدنی سے میڈیا چلتا ہے۔

جب 2013 میں نواز شریف وزیراعظم بنے تو اس وقت ملک کے بڑے چیلنجز دہشت گردی، امن امان، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ، معیشت اور بے روزگاری تھے۔



کراچی کا مسئلہ 2013 میں، اور آج

2013 میں پورے ملک اور خصوصاً کراچی میں امن امان کا قیام بہت بڑا چیلنج تھا۔ آئے روز ہڑتال ہوتی تھی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کراٸم عروج پر تھے۔ پھر وفاقی حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر رینجرز کی قیادت میں ایک آپریشن شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک حقیقی تبدیلی آٸی۔ کراچی میں ہڑتالیں ختم ہوگٸیں؛ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سٹریٹ کراٸم بھی ختم تو نہیں لیکن بہت کم ہو گئے۔ اس کے علاوہ آغاز میں ہی نواز شریف کو چین سے ایک بڑی سرمایہ کاری مل گٸی جس کے ذریعے ملک میں بجلی کا مسٸلہ حل ہونے، بے روزگاری کے خاتمے اور معیشت کی بہتری کی امید پیدا ہوگٸی۔ اس کے علاوہ ضرب عضب آپریشن سے ملک میں امن امان بحال ہونے کی بھی امید نظر آنے لگی جسے ہر عام آدمی محسوس کر رہا تھا۔ یوں نواز شریف بہت خوش قسمت رہے کہ وہ اپنے ابتداٸی دور میں بہتری کی امید پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

لیکن کیا ٹی وی یہ سب دکھاتا تھا؟

لیکن جب ہم ٹی وی آن کرتے تھے تو وہاں یہ خبر نہیں لگتی تھی کہ پچھلے سال ایک دن میں دس لوگ قتل ہوتے تھے اور اس سال دس دن میں ایک قتل ہوا۔ ٹی وی پر خبر صرف قتل کی ہی لگتی تھی۔

وہاں یہ خبر نہیں لگتی تھی کہ ملک بھرمیں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں یہی خبر یہی لگتی تھی کہ آج فلاں شہر میں معمول سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوٸی۔

وہاں یہ خبر نہیں لگتی تھی کہ امن امان کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ وہاں یہی خبر لگتی تھی کہ آج فلاں شہر میں دھماکہ یا ناخوشگوار واقعہ ہو گیا۔

وہاں یہ خبر نہیں لگتی تھی کہ دنیا بھر کے معتبر ادارے پاکستان کی معیشت کے بارے میں اچھی پیش گوٸیاں کر رہے ہیں لیکن وہاں یہ خبر روز موجود ہوتی تھی کہ پاکستان کی ایکسپورٹ کم ہو گٸی اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔

دنیا کے ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا حصہ 0.5 فیصد بھی نہیں

وہاں روز یہ بتانے والا کوٸی نہیں تھا کہ تجارتی خسارہ ملک میں لگنے والے بجلی اور گیس کے منصوبوں کی مشینری کی امپورٹ اور بجلی کا بحران حل ہوتے دیکھ کر صنعتی پھیلاؤ میں مزید مشینری کی امپورٹ بھی ہے جو بعد میں پیداوار بڑھائے گی تو ایکسپورٹ بھی بڑھیں گی۔ اس کے علاوہ ایکسپورٹ میں کمی بجلی اور گیس کی کمی کی وجہ سے زاٸد قیمتوں پر اشیا کی تیاری بھی ہے جو کہ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتی۔ دوسرے ملک ہم سے سستی اشیا بنا رہے ہیں لیکن ہمیں درختوں کی اہمیت أور ماحولیات پر لگا دیا گیا جو کہ اچھی بات ہے لیکن دنیا کے ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا حصہ 0.5 فیصد بھی نہیں۔ ہمیں دوسروں کی پھیلاٸی آلودگی کے اثرات سے بچنے کے لئے درخت لگانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے جبکہ دوسرے ممالک کوٸلے سے سستی بجلی پیدا کر کے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے میں لگے رہے اور ہمیں ماحولیات کے تحفظ پر لگا کر ایکسپورٹ میں کمی کا ذمہ دار وزیراعظم اور اسحاق ڈار کو بنا دیا گیا۔

میڈیا میں تبدیلی کی ہوا

اور پھر میڈیا میں تبدیلی کی ایسی ہوا چلتی دکھاٸی دیتی تھی کہ حقیقی تبدیلی کو چھوڑ کر لوگ اس تبدیلی کے بارے میں سوچنے لگتے جو ابھی آٸی ہی نہیں تھی۔ اس وقت تو کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ مثبت رپورٹنگ کی جائے بلکہ اس کے برعکس معیشت پر کانفرنس کر کے منفی پہلو اجاگر کیے گئے۔

حالانکہ اصل تبدیلی تو وہ اہمیت رکھتی ہے جو آپ کی روز مرہ کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہو۔ وزیراعظم کا پروٹوکول کتنا ہے میری زندگی پر براہ راست اس کا کوٸی اثر نہیں اور بالواسطہ بھی ایک روپے کا ہزارواں حصہ ہوگا لیکن مجھے یہ بتایا گیا یہ اصل تبدیلی وہ ہوگی جب وزیراعظم کا پروٹوکول ختم ہوگا اور جب وزیراعظم پھٹی ہوٸی قمیض پہن کر جھگی میں رہے گا۔ حالانکہ اگر وزیراعظم کا روزانہ کا خرچہ 22 کروڑ بھی ہو تو مجھ پر روزانہ کا ایک روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ ہم روزانہ کی خرید و فروخت میں سینکڑوں روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں اس میں سے وہ ایک روپیہ جو وزیراعظم پر خرچ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے سب سے قیمتی بنا دیا گیا۔

عمران خان جب اقتدار میں آئے تو ان کے لئے ایک ہی چیلنج تھا

اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان میں کبھی بھی پالیسی کا تسلسل نہیں رہا۔ اگر نواز شریف اس بار اپنی مدت پوری کر کے دوبارہ منتخب ہو جاتے تو یہ پاکستانی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی اور خوشگوار تبدیلی ہوتی کیونکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں یا تو سالوں سے ایک ہی پارٹی یا شخص برسر اقتدار ہے یا پھر وہاں ایک پارٹی کو مسلسل دو ادوار ملتے ہیں تاکہ وہ پالیسی کے تسلسل سے اپنے دیے ہوئے وژن پر عمل کر سکیں۔

نواز شریف کے برعکس عمران خان جب اقتدار میں آئے تو ان کے لئے ایک ہی چیلنج تھا۔ وہ تھا سیاسی عدم استحکام، جو انہوں نے خود پیدا کیا تھا۔ اس کی وجہ سے معیشت کی خراب ہوتی صورتحال اور ہمیں مثبت رپورٹنگ کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ معیشت کرپشن کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے لیکن سوال اب یہ جنم لے رہا ہے کہ اب تو کرپٹ لوگ چلے گئے، صادق اور امین آ گئے تو اب معیشت کو کیا مسٸلہ ہے؟ وہ نیچے کیوں جا رہی ہے؟ کم از کم وہیں تو رک جائے جہاں کرپٹ چھوڑ گئے تھے۔

عمران خان کے ساتھی بھی ایک ایک کر کے مخالفت میں بولنے لگے ہیں

ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں تو وزیراعظم کو آئے ایک سال گزرتا نہیں دھرنے شروع ہو جاتے ہیں اور انتخابی وعدے جلد از جلد پورے کرنے کی ڈیمانڈ آنے لگتی ہے اور اب نئے وزیراعظم عمران خان کے ساتھی بھی ایک ایک کر کے مخالفت میں بولنے لگے ہیں اور اس تبدیلی کو لانے میں کردار ادا کرنے پر شرمندہ ہو رہے ہیں اور وزیراعظم سے استعفے کا بھی مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں اور مخالفین بھی حکومت گرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ قصور عمران خان کی انتقامی سوچ کا بھی ہے لیکن حقیقت میں ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو عقل سے عاری ہیں، جو ہر دور میں لوگوں کے جذبات بھڑکا کر حکومتوں کو غیر مقبول کر کے غیر جمہوری قوتوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ اتنی جلدی تو الٰہ دین کے چراغ کا جن بھی ہمارے مسٸلے حل نہیں کر سکتا جتنی جلدی ہم ایک منتخب حکومت کے وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں لیکن ہاں یہ بات ہے کہ عمران خان کو بھی اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ پہلے سال میں کم از کم قوم کے سامنے ایک ایسا روڈ میپ ضرور رکھ دیں جس سے لوگوں میں ایک امید پیدا ہو جیسے نواز شریف نے سی پیک، بجلی کے منصوبوں اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے پیدا کی تھی۔ عمران خان پہلے چھ ماہ میں تو ایسی کوٸی بھی امید کی کرن پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ آگے الله بہتر کرے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔