عراق سے تعلق رکھنے والے متنازع روحانی معالج ملا علی کردستانی کی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ سعودی عرب، عراق اور ترکی میں گرفتار ہونے والی اس شخصیت کو پاکستان میں اتنا پروٹوکول کیوں دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں ملا علی کردستانی کی خوب مشہوری ہو رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روحانی دم کے ذریعے گونگے بہروں اور اپاہجوں کا علاج کرتے ہیں، پاکستان بھر سے لوگ اپنا علاج کروانے ان کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز خوب وائرل ہو رہی ہیں۔
وہ رواں ماہ یکم نومبر کو پاکستان پہنچے تھے۔ پہلے انہوں نے لاہور میں قیام کیا اور آج کل اسلام آباد آئے ہوئے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ علاج کی غرض سے ان کے پاس آ رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی شخصیات کیساتھ ان کی ملاقاتوں کی ویڈیوز اور فوٹوز بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان رہنماؤں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر، فردوس عاشق اعوان، مولانا طاہر اشرفی ودیگر شامل ہیں۔
یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ ملا علی کردستان کو فراڈ کے الزام میں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ترکی اور عراق میں بھی ان کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھی۔ بعض لوگ چیلنج کر رہے ہیں کہ یہ روحانی معالج مصدقہ طور پر کسی گونگے یا بہرے کو ٹھیک کر دیں تو انہیں ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گا۔
میئر اسلام آباد حمزہ شفقات نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے جب تک وہ قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ ہم تک جو اطلاعات پہنچی ہیں ان کے مطابق وہ دم درود یا قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہیں، یہ کسی قانون شکنی کی ذیل میں نہیں آتا۔‘
حمزہ شفقات نے اپنی ٹویٹ میں ملا علی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ کوئی روحانی معالج اسلام آباد آیا ہوا ہے۔ لوگ ان سے اپائنٹمنٹ لینے کے لیے ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ بطورِ وضاحت عرض ہے کہ ہمارے دفتر کا مولانا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
https://twitter.com/hamzashafqaat/status/1459816657480822784?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1459816657480822784%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.independenturdu.com%2Fnode%2F84991
متنازع روحانی معالج مَلا علی کردستانی اپنے علاج کی ویڈیوز کو اپنے فیس بک پیج پر لائیو دکھاتے ہیں، اور یوٹیوب پر بھی اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مختلف بیماریوں کا روحانی علاج کرتے ہیں، البتہ بعض بیماریوں کے علاج میں مہینے یا سال لگتے ہیں جس کے لیے ادویات بھی دینا پڑتی ہیں۔
وہ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں لوگوں کا ’روحانی‘ علاج کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے طریقۂ علاج کی تشہیر کرتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر مختلف ویڈیوز موجود ہیں جن میں انہیں لوگوں میں سے جن نکالنے اور ناقابلِ علاج بیماریوں کا علاج کرتے دکھایا گیا ہے۔
انہوں نے استنبول میں بھی ایک دفتر قائم کیا تھا جہاں ان لوگوں کا علاج کیا جانا تھا۔ ملا علی کردستانی سے علاج کروانے والے لوگوں نے علاج کی یہ درخواست سوشل میڈیا کے ذریعے بھیجی تھیں۔ علاج کے لیے آنے والے ایک خاندان نے ملا علی کردستانی کے طریقہ علاج کو دیکھنے کے بعد شکایت کی جب کہ ایک شخص نے اس طریقۂ علاج کی ویڈیو بھی بنا لی جس میں ملا علی کردستانی کے ایک معاون کو مریض کے پیروں پر ڈنڈے مارتے دیکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اگلی صبح ان کے دفتر کے باہر لوگوں کا ایک جمگھٹا پھر سے موجود تھا جس میں امریکہ اور جرمنی تک سے آنے والے لوگ شامل تھے۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ترک حکام نے ملا علی کردستانی کے دفتر پر چھاپہ مار کے اسے سیل کر دیا جب کہ ملا علی کردستانی کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے۔
اس سے قبل سال 2020 میں ملا کردستانی کو سعودی عرب میں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے دو روز قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مدینہ میں ایک نابینا شخص کی بینائی لوٹا دی ہے۔ مدینہ پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ دھوکہ دہی بتائی تھی۔ آن لائن اخبار ’رووداو‘ کے مطابق ملا کردستان کا کلینک اربل شہر سے 40 کلومیٹر دور کلک نامی قصبے میں واقع ہے، جسے عراقی محکمۂ صحت کے حکام کئی بار بند کر چکے ہیں۔ کردستان ریجن کی جانب سے انہیں متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس سے قبل 2017 میں ملا کردستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جنوں کا سایہ ہے اور وہ ان کا علاج بھی پیروں کے تلووں پر چھڑیاں مار کر کر سکتے ہیں۔ ترک اخبار ’حریت‘ کے مطابق ملا علی کردستانی کے معاون علاج کے لیے ان کے دفتر آنے والے افراد کے نام اور فون نمبر درج کرتے تھے اور انہیں بتایا جاتا تھا کہ علاج کے لیے صرف محدود تعداد کو ہی ’کورس‘ میں داخلہ دیا جائے گا، لیکن ہجوم کو بار بار مطلع کرنے کے باوجود بھی علاج کی غرض سے آنے والے لوگ باز نہیں آتے۔
تفصیلات کے مطابق پولیس کو ان کے دفتر پر چھاپے کے دوران ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے، سٹریچر اور کئی کتابیں ملیں جن پر ملا علی کردستانی کی تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ یہ تمام چیزیں اس ’طریقۂ علاج‘ میں استعمال ہوتی تھیں۔ چھاپے کے دوران حکام کو ایسے افراد کا بھی سامنا کرنا پڑا جو ملا علی کردستانی کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’وہ ہمارا علاج کر رہے ہیں۔ آپ نے ان کے خلاف شکایت کیوں درج کی ہے؟‘
ایک شخص مصطفیٰ کپلان نے ’حریت‘ کو بتایا، ’میرے ایک بچے کو آٹزم ہے۔ میں نے سنا کہ ملا علی کردستانی نامی ایک شخص ترکی آیا ہے اور باشاک شہر میں مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔ ہم جانتے تھے کہ آٹزم میں مبتلا بچوں کا علاج ممکن نہیں مگر ہم پھر بھی اس کے پاس چلے گئے۔ جب میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ بچوں کے سروں کو پکڑے کچھ پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد وہ ایک بچے کو الگ کمرے میں لے گئے اور اس کے پیروں پر ایک سوا فٹ لمبی چھڑی سے ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ اس نے بعد انہوں نے بچوں کے والدین سے کہا کہ یہ عمل ایک سال تک جاری رہے گا اور وہ ہر دو ماہ بعد چیک اپ کے لیے آتے رہیں۔ اس نے کہا کہ یہی اس کا طریقۂ علاج ہے اور وہ اس کے 200 لیرا وصول کرتا ہے۔‘
فلیز دوغرو نامی ایک ماں کا بچہ بھی آٹزم کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’اس وقت ہماری واحد امید یہ شخص ملا علی کردستانی ہے جو باہر سے آیا ہے۔ اس شخص کو اس کے اپنے ملک سے جلاوطن کیا گیا ہے، اسے سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ازبکستان میں کام کرتا ہے۔‘
اخبار ’حریت‘ کے مطابق ایک اور شخص نے کہا کہ اس کے بچہ سن نہیں سکتا تھا۔ وہ ملا کردستانی کے پاس آئے جنہوں نے ان سے 1400 لیرا وصول کیے اور بچے کے کان کھینچ کر اس کی کمر پر چھڑی سے ضربیں لگائیں۔ اس کے بعد انہوں نے بچے کو کوئی دوا بھی دی جو ٹافی کی طرح کی کوئی چیز تھی۔‘ جرمنی سے آنے والے احمد ازکایہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جرمنی سے آئے ہیں۔ ہم نے اپنا رہائش کا اجازت نامہ بھی حاصل نہیں کیا لیکن وہ یہاں نہیں ہیں۔ اب ہم ان کا انتظار نہیں کریں گے۔ ہم نے ان کے بارے میں سوشل میڈیا سے سنا تھا اور اسے سچ سمجھ لیا۔‘
احمد کی اہلیہ مریم ازکایہ کہتی ہیں، ’ہم منتظر ہیں کہ ہمارا بچہ بات کر سکے اور وہ چل پھر سکے۔ لیکن انہوں نے ہم سے 25 ہزار یوروز مانگے ہیں۔‘آٹزم سے متاثر ایک بچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری امیدیں ایک شخص ملا علی کردستانی سے وابستہ ہیں۔ انہیں پہلے اپنے ملک سے نکالا گیا تھا، پھر انہیں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا اور اب وہ اپنا کام ازبکستان میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ سوشل میڈیا پر ان کو دیکھتے ہیں اور ان پر یقین کرتے ہیں۔‘