بندیال کا سورج غروب، قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں عدل کی نئی سحر طلوع

عدل کی نئی صبح جسٹس فائز عیسیٰ کے حلف سے منسوب کی جا سکتی ہے جس کے گواہ ان کے فیصلے اور بحیثیت ایک جج کے ان کا عدالتی کنڈکٹ ہے اور اس کی گواہی ان کے انتہائی مخالف بھی ان کو ایک راست گو کہہ کر دے رہے ہیں۔ اس نئی صبح کا آغاز کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی سماعت کو مقرر کر کے کر دیا گیا ہے۔

بندیال کا سورج غروب، قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں عدل کی نئی سحر طلوع

سپریم کورٹ کے اندر لمبے عرصے کے بعد انصاف کی ایک نئی امید کی صبح طلوع ہونے جا رہی ہے جس کا اشارہ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس نے کل اپنے سپریم کورٹ کے ملازمین کے ساتھ فیئرویل پارٹی میں خطاب کے دوران اپنے آپ کو ڈوبتا ہوا سورج کہہ کر دیا ہے۔ ان کی اس سے کیا مراد ہے وہ خود ہی وضاحت دے سکتے ہیں مگر ڈوبتے سورج کی لالی کی جو منظرکشی ملکی و بین الاقوامی میڈیا نے کی ہے اس میں ان کی تعریف کچھ یوں ملتی ہے۔ کہیں 'ون میں شو' لکھا گیا تو کہیں 'گاؤن کے پیچھے چھپا ہوا سیاست دان'، کہیں 'ہم خیال ججز کا سرغنہ' تو کہیں 'متنازع ترین چیف جسٹس' اور کہیں 'انصاف کے نام پر منافقت کا دور' دیکھنے کو ضرور ملتا ہے۔ یہ سب وہ القابات ہیں جن میں سے اکثریت سپریم کورٹ کے معزز ججز کے ان کے بارے میں محسوسات اور خیالات ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلتے نازیبا الفاظ میں ٹرینڈز تو یہاں بیان کرنے کے بھی قابل نہیں۔ اور ان تجزیوں میں اس سورج کی ان کرنوں کا بھی منظرنامہ پیش کیا گیا ہے جس نے پاکستان کے عدالتی نظام کی درجہ بندی کی تنزلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے فیصلے اور ان کے تشکیل کردہ بنچز کی کارروائی ان کے اپنے ہی خلاف گواہیاں دیتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ شکر ہے کہ یہ انصاف کی اندھیر نگری کا خود ساختہ چراغ گل ہوا جس کو ثاقب نثار نے جلایا جو ایک سیاسی انجینیئرنگ کا پلان تھا۔

یہ سپریم کورٹ کا ایسا دور تھا جس میں عدالت کی آزادانہ رائے انتظامی اختیارات کے بندوبست کے زیر عتاب رہی، منتخب نمائندوں کو نا اہل کیا گیا، آئین کی متضاد تشریحات ہوئیں جنہیں ری رائٹینگ آف کانسٹیٹیوشن کہا گیا، نتیجتاً ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کی اخیر ہوئی، عدالتوں بارے عوام میں عدم اعتماد پیدا ہوا، عدالتی ساکھ کی تباہی سے فیصلوں کی سرعام تضحیک کی گئی، قانون کی حکمرانی کا مذاق بنا، معیشت کی تباہی ہوئی، جمہوریت کو شرمساری ہوئی اور انسانی حقوق کے نام پر سیاسی مقاصد کی تکمیل کی ایک ناکام کوشش نے 'ہم خیال ججز کے فیصلوں کی صورت'  میں نظریہ ضرورت کی ایک نئی انصافی جہت سے متعارف کروایا۔ تو اس منظرنامے کی روشنی میں اسے انصاف کے سورج کو منہ بسورتا خود ساختہ گل ہوتا ہوا چراغ ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے ان کے آخری عشائیے کا بائیکاٹ کیا اور جو اعلامیہ جاری کیا اسے ان کے خلاف چارج شیٹ کہا جا رہا ہے جس میں ان کے تمام انتظامی اختیارات سے لے کر عدالتی فیصلوں تک سے عدلیہ کو پہنچنے والے نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں عدلیہ کی ساکھ اختیارات کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے۔

اگر ان کو اس بارے کوئی غلط فہمی ہے تو وہ اپنے پیش رو ان چیف جسٹسز کی حالت زار کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں جو ایک خود ساختہ قید تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک صاحب پچھلے دنوں میڈیا کے سامنے آئے تھے اور سخت سوالوں کے بعد پھر غلطی نہیں کی۔ کل ہی ایک مبینہ خبر گردش کر رہی ہے کہ ثاقب نثار امریکہ سے واپسی پر دوحہ میں پاکستانیوں کے قہر آمیز رویوں کا نشانہ بنے۔ اگر کسی اور نے بھی اپنی مقبولیت کو آزمانا ہے تو عوام کا سامنا کر کے ایک کوشش کر دیکھے، سب پتا چل جائے گا۔

عدل کی نئی صبح جسٹس فائز عیسیٰ کے حلف سے منسوب کی جا سکتی ہے جس کے گواہ ان کے فیصلے اور بحیثیت ایک جج کے ان کا عدالتی کنڈکٹ ہے اور اس کی گواہی ان کے انتہائی مخالف بھی ان کو ایک راست گو کہہ کر دے رہے ہیں۔ جہاں عدل کا معیار ہوتا ہے وہاں دشمن بھی گواہی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس نئی صبح کا آغاز کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی سماعت کو مقرر کر کے کر دیا گیا ہے جس بارے نئے چیف جسٹس، وکلا برادری اور سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کو بہت سارے تحفظات تھے جن کا اظہار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے سابق چیف جسٹس کے ساتھ بنچ میں بیٹھ کر بھی کر چکے ہیں اور انہوں نے بنچ کو احتجاجاً چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان بنچز کی تشکیل کو جائز نہیں سمجھتے اور نا ہی وہ اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد سے کسی بنچ میں بیٹھے ہیں۔ تو اس لئے ضروری تھا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ ہوتا۔ لہٰذا اس کے لئے فل کورٹ کو تشکیل دے دیا گیا ہے اور اس پر فیصلہ ہونے کے بعد باقاعدہ نئے انصاف کے دور کا آغاز اور بنچز کی تشکیل کا ایک آزادانہ اور شفاف طریقہ کار وضع ہو گا جس سے بہتری دیکھنے کو ملے گی۔

اس کے بعد کئی اور تبدیلیاں بھی متوقع ہیں جن میں سپریم کورٹ کو نئے رولز بھی بنانے پڑیں گے جن کے تحت نئے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ادارے کی کارروائی کو چلایا جانا ہے۔ ان نئے رولز میں ہم نا صرف بنچز کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم کی شفافیت کے لئے پرامید ہیں بلکہ جس طرح سے نئے چیف جسٹس اپنے خلاف ریفرنس میں کھلی عدالت کی درخواست کرتے رہے ہیں اس کی طرز پر میڈیا کے سامنے قومی نوعیت کے مقدمات کی کارروائی کو چلانے کے لئے رولز بنانے کی کوشش بھی کریں گے تا کہ ہر خاص و عام سپریم کورٹ کی کارروائی کو دیکھ سکے۔ ان کو ججز کے کنڈکٹ سے لے کر انصاف کے اصول لاگو ہوتے ہوئے بھی دیکھنے کا موقع ملے۔ اس سے ججز کی کارروائیوں کے میڈیا کے ذریعے سے غلط رپورٹ ہونے کے خدشات بھی دور ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ کئی ایسے سوالات بھی ہیں جن کا سپریم کورٹ سے عملاً جواب متوقع ہے جن میں ججز کے اثاثوں بارے معلومات ہیں جن کی نئے چیف جسٹس پہلے ہی رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کے ویب سائیٹ پر اشاعت کر چکے ہیں اور پھر سپریم کورٹ کے اندر ملازمین کی بھرتیوں بارے معلومات کے حصول کی درخواستیں دی گئیں جن پر سپریم کورٹ کی طرف سے ان معلومات کو چھپانے کے لئے ایک لمبی جنگ لڑی گئی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر بھی حاصل کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اب ان معلومات کو دینے کا آغاز کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کرے گی تا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کی ایک مثال قائم کی جا سکے تا کہ باقی اداروں کو بھی یہ ادراک ہو کہ عوام کو اداروں اور ان میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بارے معلومات کا حصول ان کا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے جس سے احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے اور حکومتی امور میں شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔

جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو پھر اس عمل کو مؤثر بنانے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ چونکہ احتساب نظام عدل کا ایک جزو ہے اور ججز کا کام ہی انصاف کی فراہمی ہے تو پھر اس کا آغاز بھی یقیناً ان سے ہی ہونا چاہئیے۔ اس کے لئے ایک درخواست حنا جیلانی کی سپریم کورٹ کے اندر سماعت کی منتظر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس کو فوراً سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا تا کہ یہ طے ہو سکے کہ ججز کا احتساب ہونا چاہئیے یا نہیں اور اگر نہیں ہو پا رہا تو اس میں کون سی مشکلات درپیش ہیں۔ ماضی کی پریکٹس کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ججز کے احتساب کا قانون تو موجود ہے مگر عملاً کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس سے ججز پر اٹھنے والے بدعنوانی کے الزامات کا کوئی منطقی نتیجہ حاصل ہو سکا ہو۔ اب تک تو جن ججز پر اس طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں وہ استعفیٰ دے کر تمام تر مفادات کے ساتھ اپنی ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں اور مراعات کو انجوائے کرتے ہیں۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ بدعنوانی کو ان کی ملازمت یا ریٹائرمنٹ سے مشروط کرنے کی منطق کی کیا دلیل ہے؟ کوئی ریٹائرمنٹ لے یا ناں مگر اس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیق کا ہونا تو ضروری ہے تا کہ احتساب کے عمل کو شفاف بنا کر باقی اداروں کے احتساب کی نگرانی کے عدالتی اختیارات کو تقویت بخشی جا سکے۔

موجودہ ججز کے خلاف جو درخواستیں جوڈیشل کمیشن میں پڑی ہیں ان پر فوری کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئیے تا کہ ان ججز کے دوسروں کے بارے میں فیصلوں میں بیٹھنے سے پہلے ان کے اپنے خلاف الزامات کا فیصلہ ہو جائے تا کہ انصاف کی بنیادی شفافیت اور غیر جانبداری کی شرط تو پہلے پوری ہو۔

نظام انصاف کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ججز کی تعیناتیوں کے عمل کو بھی شفاف بنایا جا سکے اور سنیارٹی کے اصولوں کو اپلائی کیا جائے۔ جو ججز ان اصولوں کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ چکے ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی ایسا فیصلہ ہونا چاہئیے تا کہ انصاف کی نئی صبح کی نوید کے حقیقی ہونے پر یقین کیا جا سکے۔ ججز کی تعیناتی اور ان کے خلاف درخواستوں کی کارروائی بھی جیسا کہ جسٹس فائز عیسیٰ اظہار کرتے رہے ہیں، کیمرے کے سامنے ہونی چاہئیے تا کہ عوام اس کو دیکھ سکے اور اس پر کسی قانونی قدغن کے نہ ہونے کا بھی وہ اظہار کر چکے ہیں جس کو اب عملی شکل دینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ عدلیہ کو اب اپنے حصے کی غلطیاں تسلیم کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا۔

نظام انصاف کو تیز تر بنانے کے لئے مئی 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک فورم منعقد کروایا تھا جس میں مختلف سفارشات مرتب کی گئیں اور اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا اس میں بہت اہم کردار تھا۔ اب وہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان کی سربراہی میں ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے گی جو ان سفارشات کی روشنی میں رولز کو مرتب کر کے ان پر عمل درآمد سے انصاف کے عمل کو تیز اور شفاف بنا سکے جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کرنے اور نظام انصاف کو جدید ٹیکنالوجی کی میسر سہولیات سے ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہو۔