ہم رات میس میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ ٹاک شو میں یہ منظر دیکھتے ہی ایک آفیسر چلایا، دیکھو ٹی وی شو میں بوٹ میز پر پڑا ہے۔ پھر سارا میس قہقہوں سے گونج اٹھا۔ یہ واقعہ ایک حاضر سروس شخص نے میرے ایک دوست کو کل فون پر سنایا، جس سے اس کا اعتماد کا رشتہ ہے اور تکلفانہ مراسم ہیں۔
ریاست مدینہ کی وفاقی شوری میں شامل، کپتان کی ٹیم کے آئٹم گرل وزیر کے تازہ ترین آن ائیر آئٹم کی گونج ابھی تک پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ جس نے ایک طرف امور مملکت چلانے والے کرداروں کی سنجیدہ طبع اور میچورٹی کا پردہ چاک کر دیا ہے تو دوسری طرف پچھلے 60 سال سے مسلط راج نیتی کے اس مکمل نظام کو سر عام ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کو کمپرومائز میں اس حد تک جھکنا پڑا کہ پارٹی کے آفیشل قائد شہباز شریف اور پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے اگرچہ غیر معمولی پھرتی دکھاتے ہوئے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کی حمایت کا پیشگی بیان دے دیا۔ ن لیگ کے یہی 2 رہنما ڈیل کے لئے مقتدر حلقوں کے ساتھ تمام مذاکرات میں شامل رہے تھے لیکن مقتدر حلقوں نے ان کے بیانات کو ناکافی کہہ کے سختی سے مسترد کرتے ہوئے دو ٹوک تقاضا کیا کہ ہمیں بل کی حمایت بارے ڈائریکٹ نواز شریف کی گارنٹی چاہیے، جب تک نواز شریف کے منہ سے نہیں سن لیتے، ہم معاملہ اوکے نہیں کریں گے۔ بیان ڈائریکٹ نواز شریف کا آنا چاہیے اور مقتدر حلقوں نے اس مقصد کے تحت بل کی منظوری کا پورا پارلیمانی پراسیس ہولڈ کروا دیا تھا۔ چنانچہ اس دوران اہم شخصیت سے ڈائریکٹ نواز شریف کی مختصر بات کروائی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کو بھی شہبازشریف نے ڈائریکٹ نواز شریف کا پیغام پہنچایا۔
ادھر لندن میں اچھے دنوں کی حتمی تصویر کی منتظر، لندن میں بیٹھی ن لیگ کی اعلیٰ قیادت بے چینی سے اس بات کا کھوج لگانے میں لگی ہے کہ وہ امانت آخر کیا ہے جو ابھی تک چوہدری برادران اور مولانا فضل الرحمان کے سینوں میں دفن ہے۔ جو معاملات طے پا جانے پر مولانا کا آزادی مارچ دھرنا دارالحکومت سے یکایک سمیٹ لیے جانے کا سبب بنے، وہ آخر ہیں کیا؟ بتایا جاتا ہے کہ چوہدری برادران کے ذریعے مولانا سے طے کئے گئے خفیہ سمجھوتے کی تفصیلات پر مبنی امانت کا سراغ لگانے ہی کی غرض سے 14 جنوری کو نواز شریف نے سردار ایاز صادق کو مولانا فضل الرحمان کے پاس بھیجا تھا۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ مولانا نے لیگی قیادت کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔
ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو اس بات کا پوری طرح احساس ہو چلا ہے کہ اسے بھی مقتدر قوتوں کی طرف سے اپنے اہداف کے حصول کے لئے فی الحال استعمال کیا جا رہا ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا رہا، ہو سکتا ہے مسلم لیگ ن کی قیادت کو جو ریلیف دیا جا چکا، اس سے زیادہ نہ دیا جائے۔
اسی خدشہ کے پیش نظر اسے اپنا سیاسی آئندہ لائحہ عمل طے کرنے اور ٹوٹتی بکھرتی پارٹی اور کارکنوں کی صفوں میں اپنی قیادت سے روز بروز بڑھتی مایوسی، بدگمانی اور انتشار کے حوالے سے کوئی پالیسی لائن اختیار کرنے میں سخت مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اسی لئے ن لیگ کی اعلیٰ قیادت متذکرہ امانت کے کھوج میں نکلی ہوئی ہے۔