سنی دیول کی فلم لو ہاسٹل خون کی پیاسی غیرت کی کہانی ہے۔ اس کے کردار عاشق اور معشوق نہیں بلکہ دادی اور بھائی بھی ہیں۔ یہ فلم قتلِ غیرت کی بہترین تشریح ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ عشق کرنے والوں کی زمین کتنی تنگ ہے۔
فلم میں ڈاگر صاحب عرفِ سنی دیول عاشقوں کو ان کی روایات کے خلاف بقول روایتی حصول پرستوں کے غیر روایتی کرتوت لوگوں کا قلع قمع کرنے کی فرائض انجام دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے جسے ہم جسے کرائے کا قاتل سمجھتے ہیں۔
لو ہاسٹل عدالتی ماتحت سیف ہاؤس ہے جہاں بقول معاشرے کے گمراہ لوگ عدالتی طریقہِ کار سے نکاح کرکے یہاں شفٹ ہوتے اور ریاست عدالتی احکامات کی روشنی میں انہیں جانی حفاظت کا پابند ہوتا ہے۔
بدنامِ معاشرہ گمراہ لوگ عدالتی حکم سے خاندان کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ عدالتی سمن میں پیش ہوتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کے مطابق حلفیہ بیان دیں کہ خاندان کا کوئی بھی فرد ان گمراہ لوگوں کی جان کی حفاظت کرے گا۔
ویسے ڈوگرا صاحب خاندان اور معاشرتی روایت کے امین ہیں۔ یہ صاحب سیپ ہاؤس میں بھی رسائی رکھتے ہیں اور وہاں موجود گمراہ لوگوں کو جہنم واصل کرتے ہیں۔
میری کوشش ہے کہ یہ خاکسار آپ قارئین کو سینما کے ناظرین ہی نہ بنا دے، بس فلم کے آخری اور دلچسپ سین کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس فلم میں مرکزی کردار لڑکی جیوتی کٹر ہندو خاندان سے اور لڑکا آشو شوکین مسلمان ہیں۔ معاشرتی اور خاندانی اصولوں کے برخلاف یہ دونوں مذہبی گمراہی کا بھی شکار ہیں۔ اس لیے جیوتی کی دادی جو خاندانی سیاست کے چئیرمین ہیں، ڈاگر صاحب کی خدمات لیتے ہوئے دونوں گمراہوں کو جہنم واصل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ڈاگر صاحب اس مشن میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں وہ آپ فلم دیکھ لیں میں نے بس ٹریلر کی ٹکٹ سے یہ سین آپ کو دکھائے ہیں۔
ناچیز تعجب کا شکار ہے کہ فلمی اور اصلی کہانیوں اور کرداروں میں مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لڑکی کی سپورٹ اکثر باپ ہی کیوں کرتے ہیں، ماں کی مخالفت کیوں ہے؟
گنجن سکسینہ پائلٹ بننا چاہتی تھی، ماں نے مخالفت کی۔ دنگل فلم میں لڑکی کو بھی ماں کی مخالفت کا سامنا رہا اور جیوتی کی پسند کی شادی دادی کے معدے میں ہضم نہیں ہو رہی۔
ہو سکتا ہے کہ ماں کی سپورٹ بیٹی کے خواب کو پورا نہیں کر پاتی لیکن جب باپ کی سپورٹ ساتھ ہو تو ماں کی مخالفت حیران کن نہیں؟
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ماں اور دادی بھی اسی معاشرے کی سوچ کی نوک سے پلے بڑے ہیں۔ ان کی گھریلو خدمات ہی کے لیے ہوئی ہے اور ان کی سوچ گھر، سماجی اچھائی اور برائی کا سامنا اور دنیا کیا کہے گی تک محدود کی گئی ہے تاکہ وہ اس طرح رہیں کہ دنیا کچھ نہ کہے اور یہ اپنی بیٹیوں اور پوتوں پر یہی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا واقعی ہی کچھ نہ کہے۔
ان دنوں بلوچستان میں دنیا کچھ نہ کہے نظریہ کی مخالفت کرنے والے کئی گمراہ شہید کر دیے گئے ہیں لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ دنیا کچھ نہ کہنے والوں کے خلاف بول رہا ہے۔
پنجگور کی گنج گل کو معاشرتی طبیب، فلسفہ ساز بنگالی بابا بنام ملا کی منطق اور باپ کے پچاس ہزار روپے کے عوض شہید کرنے کا اقدام کیا اسلامی ہے، کیا یہ معاشرتی اور انسانی اقدار کے خلاف نہیں ہے؟ یہ غیرت، یہ ملائی منطق کسی کی جان لینے پر ہی کیوں تلے ہوئے ہیں؟ کیا یہ خون معاشرتی بدبودار غیرت انسانی نسل کشی نہیں؟
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔