پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صد قمرالزمان کاٸرہ کو صحافیوں سے بات چیت کے دوران جس انداز سے ان کے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی، اس پر مذکورہ صحافی کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ خبر بہت نامناسب اوربھونڈے طریقے سے دی گئی اور یہ ہمارے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کی کمی کا اظہار ہے۔ کیا واقعتاً مذکورہ صحافی نے جس انداز میں خبر دی، وہ طریقہ کار غلط تھا؟ اس کے پاس اطلاع دینے کے لیے اور کون سے متبادل طریقے تھے؟
واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ کاٸرہ صاحب صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ اس دوران ایک صحافی کہتا ہے کہ آپ کا بیٹا ایکسپائر۔۔۔۔ پھر وہ رک جاتا ہے۔ کائرہ صاحب پوچھتے ہیں کس کا؟ اس وقت ایک اور سینئر صحافی شاکر سولنگی بات سنبھالتے ہوئے بلند آواز میں متانت اور باوقار انداز میں کہتے ہیں، کاٸرہ صاحب ابھی ابھی خبرآئی ہے کہ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔
کاٸرہ صاحب اس پر فوراً میڈیا سے بات چیت ختم کر دیتے ہیں اور پھر ایک طرف کھڑے ہو کر معاملے کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے فون کرنے لگتے ہیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے رہنماء نیئر حسین بخاری ان کے ساتھ کھڑے ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب روانہ ہو جاتے ہیں۔
اس واقعے کو لے کر بہت سے حلقے اس صحافی پر تنقید کر رہے ہیں۔ آٸیے یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ اس وقت یہ اطلاع کس طرح دی جا سکتی تھی۔
جس وقت حادثے کی خبر آٸی اس وقت کاٸرہ صاحب کی میڈیا ٹاک جاری تھی۔ ظاہر ہے انہیں بروقت اطلاع دینا ضروری تھا اور یہ خبر میڈیا بات چیت ختم ہونے تک ملتوی کرنا معیوب ہوتا۔
اب مطلع کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے تھے۔
اول۔ کاٸرہ صاحب کو ایک ضروری بات کا کہہ کر دوسری جانب لے جایا جاتا اور انہیں یہ خبر دے دی جاتی۔
دوم۔ صحافی خود یہ خبر دینے کے بجاٸے ان کے کسی ساتھی کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیتے۔
سوم۔ صحافی کاٸرہ صاحب کو صاف الفاظ میں ان کے صاحب زادے کی موت کے بارے میں بتا دیتے۔
چہارم۔ انہیں مناسب انداز سے موت کے بجائے صرف حادثے کے بارے میں بتایا جاتا تاکہ وہ بات چیت ختم کرتے اور گھر روانہ ہو جاتے۔
ان میں سے پیغام رسانی کے مناسب ترین طریقے تو اول و دوم ہی تھے۔ مگر یہ شاید معاملے کی نوعیت، ہنگامی صورت حال اور وقت کی کمی کو دیکھتے ہوٸے صحافی نے اختیار نہ کیے۔
تیسرا طریقہ حد درجہ معیوب اور نامناسب ہوتا۔ صرف بتانے والے کی بد تہذیبی کا ثبوت ہی نہیں بلکہ کاٸرہ صاحب کے لیے بھی انتہاٸی تلخ ہوتا۔ یہ طریقہ اگرچہ ایک صحافی نے اختیار کیا لیکن احساس ہونے پر بات مکمل نہیں کی۔
دوسرے صحافی نے بلند آواز میں کاٸرہ صاحب کو بتا دیا کہ ان کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔
ہوسکتا ہے سب سے پہلے خبر بریک کرنے کا جذبہ بھی اس کے پیچھے کارفرما ہو مگر جس وقار، ہمدردی اور مناسب الفاظ کے ساتھ دوسرے صحافی نے کاٸرہ صاحب کو اطلاع دی، اس سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ بتانے والا صرف کاٸرہ صاحب کو سانحہ کے بارے میں مطلع کرنا چاہتا تھا اور وہ باپ کی حیثیت سے ان کے احساسات کی بھی سمجھ بوجھ رکھتا تھا۔
کاٸرہ صاحب کے لیے جوان بیٹے کی موت یقیناً ایک بہت بری اور غمناک خبر تھی۔ لیکن حادثہ رونما ہو گیا تھا اور انہیں مناسب طریقے سے بروقت اطلاع دینا مجبوری اور ضروری تھا۔
کاٸرہ صاحب ایک شریف النفس، باکردار اور باوقار سیاسی کارکن اور ٹھنڈے مزاج کے زیرک انسان ہیں۔ خبر انہیں مناسب ترین انداز سے ہی دی گئی۔ رہی کاٸرہ صاحب کا فوراً بات چیت ختم کرنا اور غمگین ہو جانا تو یہ ایک مشفق باپ کے لیے جوان سال بیٹے کی موت کی خبر سننے پر ایک فطری ردعمل تھا۔
ایک صحافی نے اگرچہ تھوڑی بے احتیاطی شروع میں دکھائی مگر جلد ہی وہ خاموش ہو گیا اور دوسرے نے معاملہ سنبھال لیا اور انہیں موت کی جگہ ایکسیڈنٹ کا ہی بتایا۔
صحافیوں کو کاٸرہ صاحب کے بچے کی موت کا پتہ چلا تو ان میں سے ایک نے پہلے تھوڑی بے احتیاطی کی مگر دوسرے نےمناسب طریقے سے انہیں مطلع کیا۔ تاہم یہ ایک اچانک ردعمل تھا اور اس واقعے کی بنیاد پر اُن یا سب صحافیوں کی کردارکشی کرنا غالباً مناسب نہیں ہے۔