برطانوی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ دنیا کو طالبان کو ایک نئی حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ جن باغیوں کو مغرب دہائیوں سے عسکریت پسند قرار دیتا آرہا ہے ان کا رویہ مناسب ہوگیا ہو۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے عہدیدار نے کہا تھا کہ ان کی تحریک کے رہنما دنیا کے سامنے آئیں گے جو گزشتہ 20 برس سے ان کے رہنماؤں کے خفیہ رہنے کے برعکس ہے۔
برطانوی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نک کارٹر نے کہا کہ وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی سے رابطے میں ہیں جو بدھ کے روز طالبان سے ملاقات کریں گے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نک کارٹر کا کہنا تھا کہ 'ہمیں صبر کرنا ہوگا، اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنا ہوگا اور انہیں ان کی صلاحیت دکھانے کا موقع دینا ہوگا۔
ساتھ ہی انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ہوسکتا ہے یہ طالبان نوے کی دہائی والے طالبان سے مختلف ہوں۔
https://twitter.com/newschambers/status/1428257858815250433
انہوں نے کہا کہ 'اگر ہم انہیں موقع دیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ طالبان زیادہ معقول ثابت ہوں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ طالبان ایک جیسے افراد پر مشمل تنظیم نہیں بلکہ یہ دیہی افغانستان سے تعلق رکھنے والی مختلف قبائلی شخصیات کا ایک گروہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان دیہی علاقوں میں پلے بڑھے ہیں اور قبائلی زندگی کے روایتی طریقے اور پشتون عوام کے طرزِ زندگی اسی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
نک کارٹر کا کہنا تھا کہ 'ہوسکتا ہے کہ طالبان اب کم جارحیت پسند اور زیادہ معقول ہوگئے ہوں، اگر آپ دیکھیں کہ وہ کس طریقے سے کابل کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں اس سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ یہ زیادہ معقولیت ہے۔
تاہم برطانوی فوج کے کچھ سابق افسران نے اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
افغانستان میں بطور نیٹو مشیر خدمات انجام دینے والے ایک برطانوی جنرل نے کہا کہ 'لوگوں کو ان کے اچھے الفاظوں کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہیے'۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے، انہوں نے طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا اور اب بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کے خواہش مند ہیں، اس لیے وہ خواتین کے لیے یکساں مواقع جیسے پرکشش الفاظ استعمال کریں گے۔
سابق فوجی افسر کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ طالبان اب جدت پسند ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ رفتہ رفتہ افغانستان کے بڑے اور اہم شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے 15 اگست کو دارالحکومت کابل کا کنٹرول بغیر کسی خونریزی اور مزاحمت کے حاصل کرلیا تھا۔
طالبان کی اس برق رفتار پیش قدمی پر دنیا حیران رہ گئی تھی اور افغانستان میں گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران آنے والی تبدیلیوں کے خاتمے اور 90 کی دہائی کی طرح کے سخت طرز حکمرانی کے دوبارہ نافذ ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
تاہم طالبان کے ترجمانوں نے مختلف انٹریوز اور نیوز کانفرنس میں متوقع دورِ حکومت میں نسبتاً اعتدال پسندی پر عمل پیرا ہونے، مخالفین کو معاف کرنے اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینے کا عندیہ دیا تھا۔