جہالت اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے!

جہالت اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے!
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں تعلیم انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم سے محروم معاشرے آگے بڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ کیو نکہ نئی نئی دریافتیں ہورہی ہیں۔ دنیا ایک گلوبل فیملی /گلوبل روم بن گئی ہے۔ تو اس تیز رفتار دنیا میں تعلیم کے بغیر تصور ہی پاگل پن ہے۔ جن ممالک نے تعلیم پر توجہ دی آج ا ُن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سری لنکا اور بھارت جو نزدیکی ہمسایہ ہیں، ان کو دیکھیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ تعلیم کیا چیز ہے۔ آج کمپیوٹر کی کتابیں زیادہ تر انڈین رائیٹرز لکھ رہے ہیں، وہاں نرسری کا بچہ فر فر انگریزی بولتا ہے جبکہ ہمارے ہاں آپ ایم اے پاس نوجوان کو لیں اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔

اگر ہم بظاہر جائزہ لیں توخیبر پختونخواہ دیگر صوبوں کے حوالے سے پسماندہ ترین صوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ غربت جیسے مسائل سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ جتنی بھی پالیسیاں اس  Education کے لیے بنیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ کیونکہ پالیسیاں تو بن جاتی ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ہماری بنائی ہو ئی پا لیسیاں دوسرے ممالک میں کامیاب ہوتی ہیں۔مگر پاکستان میں ناقص حکمت عملی کی بدولت وہی اچھی پالیسی ناکام ہو جا تی ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز کافی ذہین ہیں، ان کو بہت سمجھ بوجھ حاصل ہے۔ لیکن ان منصوبہ بندیوں کو لاگو کرنا ہما رے قائدین کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے قائدین کا پالیسیوں کے ساتھ ڈیل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بھارت کو آزادی ہمارے ساتھ ملی، وہاں ابولکلام آزاد کو وزیر تعلیم بنایا گیا۔ ہم آج دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں ان کی مدبرانہ صلاحیتیں رنگ لے آئی ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام ناکامی کا شکار ہے، ہماری کسی بھی حکومت نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور بھارت میں ابھی تک فوج نے حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی۔ جبکہ ہمارے ہاں فوج حکومت میں انٹرفیئر کر لیتی ہیں۔ جنرل ایوب ، جنرل یحیٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف برسراقتداررہ چکے ہیں۔ جتنے بھی سیاستدان گئے ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔

پڑھی لکھی اور گریجوایٹ اسمبلی کی بات کی گئی تو جعلی ڈگریوں کی بھر مار ہوگئی۔ بہت سے قابل سیاستدان میدان سے باہر ہوگئے اور ان کے تعلیم یافتہ (بی اے)رشتہ دار سیاست کے پر خطر میدان میں کود پڑے۔ جو  بزرگ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں صرف کٹھ پتلی بنے جبکہ فیصلے وہی پرانے کرتے تھے، صرف نئے لوگوں کا استعمال ہوتا تھا۔

بات تعلیم کے حوالے ہورہی تھی اور ہم کہیں اور نکل گئے۔اگر سوچ محو پرواز کرلیں تو سیاست کے لیے بھی تعلیم لازمی ہے۔اس کے بغیر سیاست کرنا بھی عجیب لگتا ہے۔ ایک دور حکومت میں ایک بندے نے ہمارے ایک وزیر موصوف کودرخواست دی تھی جو خیر سے ایم ایم اے کے نمائندے تھے کہ یہ ہمارے گاؤں کے لئے سڑک کی تعمیر کی درخواست ہے آپ اس پر دستخط کر لیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ وزیر صاحب نے بغیر پڑھے دستخط کئے کیونکہ درخواست انگریزی میں لکھی گئی تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ درخواست میں لکھا گیا تھا کہ زمین سے آسمان کی طرف سڑک منظور کر لیں۔ تو ہم کہنا چاہ رہے تھےکہ تعلیم کا شعبہ سب سے اہم ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ گورنمنٹ سکولوں کا معیار بالکل گر چکا ہے۔ پڑھائی نام کے کوئی چیز نہیں۔ میٹرک کے رزلٹ کو دیکھیں تو ساری پوزیشنیں پرائیویٹ سکولوں والے لے جاتے ہیں۔ حالانکہ گورنمنٹ سکولوں کے ٹیچرز کو مراعات اور تنخواہیں اچھی دی جا رہی ہیں۔ ان کے پاس پی ٹی سی،سی ٹی، بی ایڈ،ایم ایڈ کی ڈگریاں بھی ہوتی ہیں جن کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچوں کی سائیکی کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ سب میں Teaching Methodاور چلڈرن سائیکی کا مضمون پڑھایا جاتا ہے پھر بھی ہمارے گورنمنٹ سکولوں کا معیار بدترین ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے حوالے سے پھر کبھی لکھیں گے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔

ہمارے سکولوں سے  فارغ ہونے والے طلباء کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی فیلڈ ان کے لئے فائدہ مندرہے گی۔ ان کی فیلڈ آف انٹرسٹ کون سی ہے۔ وہ کس فیلڈ میں اپنا لوہا منواسکتے ہیں۔ میٹرک کے بعد یہ سوچنے میں لگ جاتے ہیں کہ اب کیا کیا جانا چاہیے، کون سے سبجیکٹ لینے چاہیئں، کیرئیر کونسلنگ اور کیرئیر بلڈنگ پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔اس انفارمیشن ایج کے دور میں تعلیم کے بغیر آگے جانا کشتی کے سمندر پار کرنے کے مترادف ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ غلطی کس کی ہے۔ میری نظر میں سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکمران،والدین،ٹیچرزاور طلباء، سب ہی تعلیم کی تنزلی کے ذمہ دار ہیں۔ حکمران تعلیم کے لئے بجٹ مختص کر دیتے ہیں۔ وہ تعلیم کے اوپر نہیں بلکہ تعلیم کے شعبے کے کرتا دھرتاؤکے جیبوں میں وہ رقم آجا تی ہے۔ ہر کوئی گنگا میں ہاتھ دھوتا نظر آتا ہے۔ پھر والدین کی باری آتی ہے وہ بچوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ بچہ پڑھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کس چیز میں وقت گزاری کر رہا ہے، سکول کی بعد ایکٹیویٹیز کیا ہیں۔ اسی طرح بعض اساتذہ نے بھی اس ماحول اور اس پیشے کو پراگندہ کیا ہوا ہے کہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے

دوسری جانب طالب علم بھی کام چور ہو گئے ہیں۔شارٹ کٹ کی دھن میں اپنے مستقبل کو تباہ کر لیتے ہیں۔ ٹین ایج کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی زندگی میں نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچہ بگڑتا بھی ہے اور سنورتا بھی ہے۔اس عمر میں وہ مستقبل کے بارے سوچناشروع کر دیتے ہیں یا وہ فکر مند ہوتا ہے یا پھر دنیا کی بھول بھلیوں میں خود کو گم کر دیتا ہے۔ ذمہ دار سب ہیں تو سب کو ملکر سوچنا ہے کہ فروغ تعلیم سے بہتر سوچ پیدا ہوتی ہے۔ تو کیوں نا سب بہتر تعلیم کے لئے کام کریں۔ ہمارا ایک قدم ملک و قوم کے معاشرتی فلاح میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا آور ہم کو دنیا کے ساتھ چلنے میں آسانی ہوگی۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔