ایئر ایمبولینس سروس؛ پنجاب حکومت کہاں غلط بیانی کر رہی ہے؟

اس سارے معاملے کو پیچیدہ بنانے یا خراب کرنے میں حکومت اور ان کے سوشل میڈیائی جتھوں کا بہت کردار ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز ایک بات کر رہی ہیں، ان کی پبلک ریلشن کی فوج دوسری بات کر رہی ہے جبکہ ان کے سوشل میڈیائی جتھے کسی اور ہی ڈگر پر ہیں۔

ایئر ایمبولینس سروس؛ پنجاب حکومت کہاں غلط بیانی کر رہی ہے؟

حکومتِ پنجاب کی جانب سے ریسکیو کے ادارے کے لیے دو طیاروں اور ایک ہیلی کاپٹر کی خدمات سے متعلق باتیں ان دنوں خبروں میں ہیں۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب مقامی نیوز چینلز نے خبریں چلائیں کہ مریم نواز شریف حکومت کے لیے نیا جیٹ خرید رہی ہیں۔ اس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے چار تصاویر شیئر کیں اور بعد میں مسلم لیگ ن اور مریم نواز شریف نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ریسکیو کے اہلکار ایک طیارے میں پرواز کر رہے ہیں اور مریض کو لے جانے کی ڈرل کر رہے ہیں۔

اس بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب اس سارے معاملے کی حقیقت کیا ہے، آئیے تمام جزیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پنجاب حکومت کیا کہتی ہے؟

پنجاب حکومت کے ہنگامی خدمات کے ادارے کی جانب سے جاری کردہ ٹینڈر کے مطابق پنجاب حکومت جنوبی اور شمالی پنجاب کے دور دراز علاقوں سے نازک صورت حال سے دوچار مریضوں کو خصوصی ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے 'پنجاب میں ایئر ایمبولینس سروس کا آغاز کر رہی ہے'۔ ایک ایئر ایمبولینس راولپنڈی/میانوالی اور دوسری ملتان/بہاولنگر میں رکھی جائے گی۔ اس ٹینڈر کے مطابق، پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ساتھ پری کوالیفائی شدہ/رجسٹرڈ کمپنیوں کو پنجاب پروکیورمنٹ رولز 2014 کے مطابق کارکردگی کی بنیاد پر ایک سال کے لیے درج ذیل خدمات کی فراہمی کے لیے اپنے ٹینڈر/بولیاں جمع کرانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس ٹینڈر میں دو طیاروں کی طلب کی گئی ہے۔

یہاں یہ امر توجہ طلب ہے کہ اس سارے معاملے کو پیچیدہ بنانے یا خراب کرنے میں حکومت اور ان کے سوشل میڈیائی جتھوں کا بہت کردار ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز ایک بات کر رہی ہیں، ان کی پبلک ریلشن کی فوج دوسری بات کر رہی ہے، ان کے سوشل میڈیائی جتھے ایک اور ڈگر پر ہیں اور ریسکیو کے ادارے اور سول ایوی ایشن ایک جانب بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ٹینڈر کے اجرا یعنی 10 مارچ کے چند دن بعد ہی درستگی کا ایک اور اشتہار شائع کیا گیا اور یہ اس حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد کیا گیا کہ پنجاب حکومت تین عدد سفید ہاتھی پال سکتی ہے اور نا ہی اس کے پاس اس کے وسائل اور استعمال کے بارے میں کوئی میکنزم موجود ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ آپ طیارہ خرید لیں اور کل سے نیو خان یا جیدا شٹل ایمبولینس کی طرح سواریاں ڈھونا شروع کر دے گا۔

درستگی کے اس اشتہار میں حکومتِ پنجاب نے 10 مارچ 2024 کو اخبارات میں شائع ہونے والے ٹینڈر نوٹس میں 'پنجاب میں ایئر ایمبولینس سروس کی فراہمی کے لیے دو ہوائی جہازوں' کی تفصیل کو 'پنجاب میں ایئر ایمبولینس سروس کے لیے خدمات حاصل کرنے' کی وضاحت سے بدل دیا۔ اس کے ساتھ ہی بولی جمع کروانے کی تاریخ میں بھی توسیع کی گئی۔

طیاروں کی خرید سے معاملہ خدمات کی فراہمی میں بدل گیا لیکن اس کے باوجود وزیرِ اطلاعات و ترجمان حکومت پنجاب عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 'مریم نواز نے یہ جہاز عوام کی سہولت کے لیے خریدا ہے'، جو کہ غلط بیانی ہے۔ یا تو حکومت پنجاب ( مریم نواز شریف جس کی وزیر اعلیٰ ہیں) ریسکیو سروسز کے لیے طیارے خرید رہی ہیں یا ریسکیو سروسز کے ٹینڈر اشتہار کے مطابق حکومتِ پنجاب کو طیارے نہیں، ' ایئر ایمبولینس سروس کے لیے خدمات' فراہم کرنے والے درکار ہیں۔ دونوں باتیں مختلف ہیں اور دونوں کا مطلب مختلف ہے۔ خریدنے کا مطلب ہے کہ یہ طیارے حکومت کی ملکیت ہوں گے جو کہ درست نہیں، کیونکہ ان کی مالک سکائی ونگز ہو گی جو انہیں بھاڑے پر حکومت کو دیا کرے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ اطلاعات و ترجمان حکومت پنجاب عظمیٰ بخاری نے مندرجہ ذیل باتیں کیں؛

1۔ ایئر ایمبولینس کا پہلا ہوائی جہاز پاکستان پہنچ گیا ہے۔

2۔ ایئر ایمبولینس والا طیارہ چھوٹی جگہ پر لینڈ کر سکتا ہے۔

3۔ تین ایئر ایمبولینس جہاز اور دو ہیلی کاپٹر ریسکیو کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

4۔ ایئر ایمبولینس پنجاب کے تین مقامات پر پارک ہوں گے۔

5۔ اسپتالوں میں جہاز اور ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کے لیے جگہ بنائی جائے گی۔

6۔ ایئر ایمبولینس کی سہولت عوام کے لیے مفت ہو گی۔

عظمیٰ بخاری نے 13 اپریل کو ایک ٹویٹ کی جس میں ایک طیارے کی چار تصاویر شیئر کی گئیں اور انہوں نے لکھا کہ 'یہ ہے وہ جہاز جو وزیر اعلیٰ پنجاب نے مریضوں کے لیے خریدا ہے'۔

عظمیٰ بخاری کی ٹویٹ

ان تصاویر میں جس طیارے کی تصاویر شیئر کی گئیں وہ جنوبی افریقہ میں جوہانسبرگ کے باہر واقع لانساریا ایئر کرافٹ انٹیریئرز کے ہینگر کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ یہ طیارہ جنوبی افریقہ کی ہیریٹیج ایوی ایشن کی ملکیت تھا، اس کی رجسٹریشنZS-PPV  تھی اور یہ ایک پائپر سینیکا ٹو طیارہ ہے جو کہ امریکی طیارہ ساز کمپنی پائپر نے 1975 میں تیار کیا تھا۔ یہ طیارہ ابھی تک پاکستان پہنچا ہے اور نا ہی اس کی رجسٹریشن سول ایویشن اتھارٹی کے ساتھ ہوئی ہے۔

مریم نواز شریف اور ن لیگ کی ٹویٹ

مریم نواز شریف اور ن لیگی اکاؤنٹس نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں ایک طیارے پر ایک مریض کو لے جانے کی مشق دیکھی جا سکتی ہے۔ اس ویڈیو میں جو طیارہ دکھایا گیا ہے اس کی رجسٹریشن AP-BPA  ہے۔ نومبر 2018 میں یہ طیارہ کراچی کی سکائی ونگز ایوی ایشن نے حاصل کیا جو کہ عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی کے طور پر اس طیارے کو آپریٹ کرتی ہے۔ یہ طیارہ 25 جنوری 2021 کو پاکستان درآمد کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ طیارہ ایئر ایمبولینس کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ فروری 2024 کو یہ طیارہ پاکستان میں رجسٹر کیا گیا۔

مریم نواز شریف نے جو ویڈیو شیئر کی اس میں جو طیارہ دکھائی دے رہا ہے وہ یہی طیارہ ہے جو سکائی ونگز ایدھی کے لیے آپریٹ کرتی ہے۔ 

پنجاب حکومت کے دعوؤں کی فیکٹ چیکنگ

وزیرِ اطلاعات و ترجمان حکومت پنجاب عظمیٰ بخاری نے پریس کانفرنس میں جو دعوے کیے ان کی حقیقت کیا ہے؟

1۔ ایئر ایمبولنس کا پہلا ہوائی جہاز پاکستان پہنچ گیا ہے

ابھی تک ایک طیارہ بھی پاکستان نہیں پہنچا۔ ایک طیارہ جو سکائی ونگز نے حاصل کرنا ہے ابھی تک جنوبی افریقہ میں ہے اور دوسرا ابھی تک امریکہ میں ہے۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا ہے تو جنوبی افریقہ والا طیارہ مئی کے آخر یا جون کے شروع جبکہ امریکہ والا طیارہ جون میں پاکستان پہنچ جائے گا۔

2۔ ایئر ایمبولینس کا طیارہ چھوٹی جگہ پر لینڈ کر سکتا ہے

اس بات کا انحصار طیارے اور لینڈنگ کی جگہ پر ہے۔ پاکستان میں مختلف جگہوں پر ہائی وے یا موٹر وے پر ایسی جگہیں ہیں جہاں پر طیارے اتارے جا سکتے ہیں اور جو طیارے سکائی ونگز حاصل کر رہا ہے وہ بہت ساری جگہوں پر لینڈنگ کر سکتے ہیں اگر زمینی طور پر اس جگہ کو چیک کر لیا گیا ہے۔ یہ طیارہ سڑک کے علاوہ پختہ کچی سطح اور گھاس والے میدان میں بھی اتر سکتا ہے۔ پنجاب میں 8 ہوائی اڈے اور درجن کے قریب ایئرسٹرپس ہیں جنہیں ہنگامی صورت حال میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ساہیوال یا اوکاڑہ کینٹ کے قریب واقع ایئر سٹرپ، یا سرگودھا میں سٹون کرشنگ کے علاقے میں بنی ہنگامی سٹرپ جو سڑک کے ساتھ جڑی ہے۔ ایئربیس یا فوجی بیس اس کے علاوہ ہیں۔ مگر یہ سارا انحصار اس عمل کر محفوظ بنانے اور آپریٹر پر منحصر ہو گا کہ وہ کتنا رسک لینا چاہتا ہے۔

پنجاب حکومت کے لیے ایئر ایمبولنس کون آپریٹ کرے گا؟

ایئر ایمبولینس سروس چارٹر کے لیے حکومتِ پنجاب کی جانب سے تین آپریٹرز کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان میں لاہور کی ہائبرڈ ایوی ایشن اور کراچی کی دو کمپنیاں سکائی ونگز ایوی ایشن اور ایئرکرافٹ سیلز اینڈ سروسز کارپوریشن شامل ہیں۔ حکومت پنجاب کے ریسکیو محکمہ کے مطابق اس عمل کے نتیجے میں دو ایئر ایمبولینسز کے لیے سکائی ونگز کی سب سے کم تشخیص شدہ بولی کی لاگت صرف 180 ملین روپے یعنی 540 امریکی ڈالر فی گھنٹہ ہو گی، بشمول تمام مرمت اور دیکھ بھال، ایندھن، عملے کی تنخواہ اور انشورنس وغیرہ کے۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سکائی ونگز کو یہ چارٹر سروس آپریٹ کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ اس ٹھیکے کے لیے ریسکیو کے ادارے کے مطابق حکومتِ پنجاب کی جانب سے منظور شدہ تخمینہ لاگت 440 ملین روپے ہے۔ یہ ایئر ایمبولینس دو پائلٹس، ایک مریض، ایک پیرا میڈیکل اور ایک اٹینڈنٹ کو لے جانے کے قابل ہو گی اور ریسکیو ادارے کی پریس ریلیز کے مطابق ایک ہموار سطح پر جیسا کہ موٹر ویز اور مقامی سڑکوں پر اترنے کے قابل ہو گی جس میں مختصر ٹیک آف اور لینڈنگ ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ریسکیو ادارے کے مطابق شمالی اور جنوبی پنجاب کے لیے ایک ایک ایئر ایمبولینس طیارہ ہو گا جو راولپنڈی اور ملتان جبکہ وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر لاہور میں دستیاب ہو گا۔

عظمیٰ بخاری نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ ایئر ایمبولینس پنجاب کے تین مقامات پر پارک ہوں گے، اسپتالوں میں جہاز اور ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کے لیے جگہ بنائی جائے گی۔ اگر ہم حکومتی بجٹ کو دیکھیں تو اس کے حساب سے ممکنہ پروازوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں بنتی اور اگر سارا بجٹ اسی پر مختص کیا جائے تو یہ مہینے کی 7، 8 یا 10 پروازیں بنتی ہیں کیونکہ ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں بڑھتا یا کم ہوتا رہتا ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایئر ٹریفک کنٹرول اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی بتانا ہو گا جب یہ آپریشنز ہوں گے تاکہ وہ ایئر ایمبولینس کی پروازوں کو ترجیحی بنیادوں پر لینڈنگ اور گزرگاہ مہیا کریں جیسا کہ زمینی ایمبولینس لائٹس اور سائرن کا استعمال کرتی ہے۔

ایئر ایمبولینس کیا ہوتی ہے؟

ایئر ایمبولینس ایک خاص طور پر تیار کردہ ہیلی کاپٹر یا طیارہ ہوتا ہے جو زخمی یا بیمار لوگوں کو طبی ہنگامی صورت حال میں یا روایتی زمینی ایمبولینس کے لیے ناقابل عمل فاصلے یا علاقے سے دور منتقل کرتا ہے۔ زمینی ایمبولینسوں کی طرح ایئر ایمبولینسیں طبی آلات سے لیس ہوتی ہیں جو زخمی یا بیمار مریضوں کی نگرانی اور علاج کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ایئر ایمبولینسز کے لیے عام آلات میں دوائیں، وینٹی لیٹرز، ای سی جی اور مانیٹرنگ یونٹ، سی پی آر کا سامان، اور سٹریچر شامل ہیں۔

ایئرایمبولینس دو قسم کی ہو سکتی ہیں۔ ان میں طبی عملے سے لیس ایئر ایمبولینس پرواز میں طبی دیکھ بھال فراہم کرتی ہے جبکہ دوسرا غیر طبی طور پر لیس اور عملے سے لیس طیارہ پرواز کے دوران مریضوں کو بغیر دیکھ بھال کے آسانی سے منتقل کرتا ہے۔ فوجی اصطلاح میں پہلی قسم کو طبی انخلاء (MEDEVAC)  اور بعد والے کو casualty evacuation (CASEVAC)  کہتے ہیں۔

سکائی ونگز 

سکائی ونگز کراچی کی ایک کمپنی ہے جس کے پاس پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا جاری کردہ ایرئیل ورک لائسنس کلاس ون مقامی ہے جو 27 اکتوبر 2024 تک کارآمد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکائی ونگز کا ایک فلائنگ سکول کا لائسنس کلاس ٹو ہے جو 13 نومبر 2028 تک کارآمد ہے۔ سکائی ونگز نے گذشتہ برس ایئر ٹیکسی کا اعلان بھی کیا تھا مگر اطلاعات کے مطابق اس کا ردِ عمل کچھ خاطر خواہ نہیں رہا اور اسے فی الحال چلایا نہیں جا رہا۔ سکائی ونگز پہلے ہی ائر ایمبولینس سروس ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے چلا رہا ہے۔

طاہر عمران تحقیقاتی صحافی ہیں اور بی بی سی سمیت مختلف عالمی صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔