صدارتی ایوارڈ کا میرٹ: پشاور زلمی کے مالک جاوید افریدی کے 22ارب ٹیکس، 30 ہزار لوگوں کو روزگار دینے کی تفصیلات طلب

صدارتی ایوارڈ کا میرٹ: پشاور زلمی کے مالک جاوید افریدی کے 22ارب ٹیکس، 30 ہزار لوگوں کو روزگار دینے کی تفصیلات طلب

ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ  کے اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ کے 16 ستمبر2020 سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے قومی ایوارڈ دینے کے طریقہ کار کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ یہ ایشو کسی ایک خاص بندے کیلئے نہیں ہے بلکہ نہایت اہم قومی مسئلہ ہے۔


قومی ایوارڈ دینے کے حوالے سے طریقہ کار، اس حوالے سے کون فیصلے کرتا ہے کہاں سے نامزدگی آتی ہے وغیرہ کی تفصیلات پوچھی تھیں۔قومی ایوارڈ دینے کے حوالے سے پہلے صوبوں میں کمیٹیاں ہوا کرتی تھیں جو نامزدگی بھیجتی تھیں اب شائد طریقہ کار بدل گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جاوید آفریدی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری لائے ہیں اور کرکٹ کے فروغ میں ان کا بہت زیادہ کردار ہے اور ان کے قریبی رشتہ دار نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس بھی ادا کیا ہے اس لئے قومی ایوارڈ میں نامزد کیے گئے ہیں۔


سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ ملک میں کرکٹ کے فروغ کیلئے لاہور قلندر کی خدمات بہت زیادہ ہیں مسلسل ہارنے کے باوجود بھی اس اکیڈمی نے بہت سے ممالک میں اپنے کھلاڑی بھیجے ہیں اور ملک میں دیگر بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ جاوید آفریدی نے 22 ارب روپے کا ٹیکس کتنے عرصہ میں دیا ہے اور جو سرمایہ کاری کی ہے اس کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ کرکٹ کے فروغ کے حوالے سے کیا دیگر لیگ کی ٹیموں کو بھی زیر غور لایا گیا تھا۔جس پر جوائنٹ سیکرٹری ایوارڈ بریگیڈیئر طاہر راشد نے بتایا کہ کیبنٹ ڈویژن کو نامزد ایجنسیاں، جن میں وفاقی وزارتیں، ڈویژنز، ماتحت ادارے اور صوبائی حکومتیں سول ایوارڈ کیلئے ہر سال دسمبر، جنوری میں قواعد وضوابط کے مطابق نامزدگی بھیجتی ہیں جو وزیراعظم سے منظور کردہ ایک فارم کے مطابق ہوتی ہیں جو متعلقہ تین ذیلی کمیٹیوں کو بھیجے جاتے ہیں اور وہاں سے منظور ہونے کے بعد مین ایوارڈ کمیٹی کے پاس جاتا ہے۔مین ایوارڈ کمیٹی کے بعد سفارشات وزیراعظم کے پاس جاتی ہیں جو صدر پاکستان کو بھیج دی جاتی ہیں۔


قائمہ کمیٹی نے وزیراعظم کے منظور شدہ فارم طلب کر لیا تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ قومی ایوارڈدینے کے معاملے کو مزید موثر بنایا جا سکے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ جاوید آفریدی کی نامزدگی وزارت منصوبہ بندی سے پبلک سروس کے حوالے سے بھیجی گئی تھی جنہوں نے 2011 میں سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد کرکٹ کے فروغ کیلئے کارکردگی کو شامل کیا اور ملک میں چین کی سرمایہ کاری لاکر 30 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع بھی دیئے۔ انہوں نے کرونا وبا کے دوران 36 ہزار خاندانوں میں راشن تقسیم کیا۔ ایک طریقہ کار کے تحت ان کا نام نامزد کیا گیا تھا۔


وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ قومی ایوارڈ مجوزہ طریقہ کار کے تحت دیئے گئے موجود حکومت نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔80 فیصد نامزدگیاں صوبوں سے آتی ہیں۔ جاوید آفریدی کو ان کی 4 سے5 سروسز کے حوالے سے نامزدکیا گیا تھا۔سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جو فارم منظور کیا ہوا ہے اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ قومی ایوارڈ دینے کیلئے جو طریقہ کار وہ ٹھیک ہے یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ قومی ایوارڈ دینے کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔اس میں کئی ماہ لگتے ہیں اور زیادہ تر ان پُٹ صوبوں سے آتی ہے۔قائمہ کمیٹی نے جاوید آفریدی کی ملک میں سرمایہ کاری، گزشتہ دس سالہ ٹیکس کی تفصیلات، 30 ہزار افراد کو روزگار دینے اور 36 ہزار راشن کی تفصیلات طلب کر لیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔