انشا اللہ ما شا اللہ الحمد للہ میں اب
خود کفیل ہو چلے ہیں،
آپ کی دعا سے،
اللہ کی مہربانی سے،
یہ ملک انشا اللہ ما شا اللہ الحمد للہ کی گردان میں اب
خود کفیل ہوچکا ہے۔
اب اس میں آپ کبھی بھوکوں نہیں مر سکتے۔
ہم خود کفیل ہو گئے ہیں
الحمد للہ
ہم نے خیمہ بستیوں میں شہروں گوٹھوں کو بدلا
زمین کو دریا میں بدلا
تمہاری چارپائیوں کو
تمہارے لئے کشتیوں میں،
اور صحرائوں میں
تپتی دھوپ میں
سائبانوں میں بدلا۔
ہم وی وی آئی پیز لوگوں نے
تمہارے درد کو تمہارے گھروں، جھونپڑیوں، کچے مکانوں سے اٹھا کر
اپنے ہی بچے سمجھ کر
باہر سڑکوں پر لے آئے
سڑکیں کہاں؟ بہتے پانیوں کے ایک ہوتے دو کناروں پہ جو کبھی تھے۔
ماشا اللہ ہم نے لاشوں کو
فرنیچروں میں بدلا۔
پانی میں
ماشا اللہ
ڈوبتی ابھرتی بستیوں کو
ہم نے وینس شہر ثابت کیا
کہ اب تم ہماری ترقی انڈیا والے تھر کے ٹیلوں پر چڑھ کر دیکھ سکتے ہو
کہ ہمارے ہر راستے روم کو جاتے ہیں
اور ہم نے دریا بادشاہ کو دونوں کانوں سے پکڑ کر
اس کے پیٹ میں محل، باغ، باغیچے، فارم ہاؤسز پتہ نہیں کیسے کیسے ہاؤسز، فش فارمز، کیٹی جیٹی
کیا کچھ نہیں بنایا کہ تم ہماری کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
ہم وی وی آئی پی لوگ۔
ہم نیرو نہیں کہ بنسری بجائیں
الحمد للہ بھٹو زندہ ہے
اور آپ کے ساتھ ہے،
دیکھ نہیں رہے کہ وہ بھی تمہاری طرح
ٹخنوں ٹخنوں پانی میں اترا تھا
اور اب بھی اترا ہوا ہے
سینئر نہ جونیئر ہی سہی
جیسے یسوع پانی پر چل رہا ہو
ہم نے اسے پانی میں چلنے کو چھوڑ دیا
کہ بیٹا، وہ خون کے دریا میں چلنے سے بہتر ہے۔
سالا ایک مچھر۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں پھر بھی مچھر دانیاں چاہئیں؟
اس کی زمینیں بھی تو پانی میں ہیں ماشا اللہ
ماشا اللہ
اور اس کے ہاری بھی
میہڑ، دادو، جوہی، خیرپور ناتھن شاہ
کے لوگ بہادر ہیں
وہ پانی میں تیرنا جانتے ہیں۔
گھٹنے گھٹنے کمر کمر گردن گردن
بہتے رہتے، ہنستے روتے، جیتے مرتے لوگ
قلندر دیکھ رہے ہو؟
تیرا سیہون رہے آباد
قلندر
گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی؟
آسمان سے اترا پانی
دریائوں میں گرتا پانی “
"اپنے راستے سونگھتا پانی"
آوارہ شاعر سا پانی
ٹن پانی
آدم بو آدم بو کرتا پانی
جوبھن جل میں جلتا پانی
بول میری مچھلی کتنا پانی۔
ہم نے تو یو۔این کے سیکرٹری جنرل کو
کتنے گندے جوتوں سے تمہارے آگے لا کر کھڑا کیا
کہ وہ تو ہمارے سرخ قالین پر پاؤں دھرنے کے بھی لائق نہیں تھا
وہ انجلینا جولی تھوڑی ہے
اور اب دنیا جہان کے کارگو جہازوں سے اترتے مال سے
ہمارے ایئر پورٹ مال بن گئے ہیں
دبئی مال
بسکٹوں کے ڈبے، کچھ نیسلے پانی کی بوتلیں کچھ خیمے تمہیں بھی تو نصیب ہوئے ہوں گے
ہم تو پھر انہی کے خیموں سے انہی کیلئے جنگل میں منگل لگائیں گے۔
ہمارے برادران یوسف جیسے اسلامی بھائی
فقط تلور کی افزائش نسل میں دلچسپی رکھتے تھے
تمہارے لئے کفار نے کنڈومز بھیجنا چاہے
لیکن ہم نے ان کی امداد کو اسلامی ٹچ دیتے ہوئے منع کر دیا
لیکن
ماشا اللہ
ماشا اللہ
ہم نے تمہیں اسپتالوں اور قبرستانوں کی ایمرجنسی سے آزاد کیا
اور ایمبولینسوں کو تمہارے لئے پبلک ٹرانسپورٹ میں بدلا
لیکن جلسوں میں ٹرانسپورٹ اور بریانی کی پلیٹ فری
اب زمینوں پر حکومت ملک ریاض کی نہیں
پانی کی ہے۔
کہ دشت تو دشت ہیں
دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
ڈوب کر مر جاؤ کہ اس سے پہلے غائب کر دیئے جاؤ
دو چپیڑیں کھا کر بھی اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں نہ آئے تو ہم کیا کر سکتے ہیں
ہم نیوٹرل ہیں
اگر نیوٹرل کا ٹیوٹرل نہیں مانو گے تو پھر تو۔۔۔۔
ہیلی کاپٹر آئے ہی گا
اور ماشا اللہ
ہیلی کاپٹر سے ہم نے دیکھا
کہ ارض وطن
ایک بڑی جھیل میں بدل چکی ہے
اور قوم خمیہ بستیوں میں
"نہ لاؤ اگاں خیمیاں نوں
پردیسیاں نوں نہیں ساڑیدا"
اور یہ کون بک رہا ہے
کہ وطن پانی کی کربلا ہے
اور اے اجنبیو
ہم کہ ٹھہرے وی وی آئی پیز لوگ
تمہیں فضاؤں سے دیکھ رہے ہیں
قدرتی آفات سے پکنک مت کھیلو
اپنے ٹکے کے ووٹ پر مت اتراؤ
دو ٹکے کے لوگو
ڈولفن سے زنا کرنے والو
ہم تمہارے ووٹ پر پیشاب کرتے ہیں
ہم نے تمہاری عورتوں کو مرمیڈوں/ جل پریوں میں بدلا
تمہارے بچوں بچیوں کو رنگین مچھلیوں میں
ہم نے اپنے ہیلی کاپٹر اور اس پر سوار شہسواروں کی قربانی دیکر
پانی پر تیرتے
تمہارے بکسوں کو صلیبوں میں بدلا
اور تمہیں پانی پر چلتے تعزیوں کے جلوس میں
اور تمہارے پہاڑوں کو روئی میں
اور تم کیا پانی پر چلتے خود کو یسوع سمجھ رہے ہو
یہ طوفان نوح ہے
خس و خاشاک زمانوں کی قسم
اس میں صرف اس کے ہم جیسے صالح بیٹے بچ سکتے ہیں
جو مگرمچھ ہوتے ہوئے بھی آسمان پر اڑ سکتے ہیں
کہ آنسو صرف ہمیں قرض میں ملے ہوئے آنسو گیس کے گولے سے نکلتے ہیں
جو ہم استانیوں، استادوں اور لیڈی ہیلتھ ورکروں پر چلاتے ہیں
بم پروف، بیلٹ پروف ٹوٹے گلاسوں والی گاڑیوں کو چھوڑ کر
ہوائی جہازوں میں دور ہی دور سے دوربینیوں سے
فضائی جائزے سے
تمہیں ڈوبتا ابھرتا دیکھ سکتے ہیں
جیسے تمہارا اپنا درد ڈوبتا ابھرتا ہے
جیسے کسی حسین یا حسینہ کی آنکھوں میں دل ڈوبتا ہے
تم نے سنا نہیں کتنی بار ہم نے اپنی پریس کانفرنسوں میں الفاظ
ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، فضائی جائزہ استعمال کئے ہوں گے۔
تم گنتے جانا
اور تم ہماری کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراؤ گے
ہم نے کیرتھر کے پہاڑوں پر نچلی پروازوں پر دیکھا
کہ تمہاری بکریاں، گائے، بھینسیں، ہمارے مگرمچھ اور مچھلیاں
سب کے سب گورکھ ہل اسٹیشن پر پکنک منا رہے ہیں
اور ان کے پیٹرول، گیس اور ہمارے بھتے بچا لئے گئے
کہ وہاں تم ڈوب چلے اپنی کچی بستیوں اور قبرستانوں سمیت
کہ اللہ تعالی تمہارا حافظ و ناصر رہے
اللہ حافظ
ہم وی وی وی آئی پیز لوگ
ڈی آئی پیز نہیں!
وی وی وی آئی پیز،
شاید تمہارے کانوں میں پانی بھر گیا ہے۔