'مزدوروں کا ہاتھی ہے الطاف حسین'

'مزدوروں کا ہاتھی ہے الطاف حسین'
یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیس بک بھی آکسیجن کی طرح بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہوتی تھی۔ ایموجیز کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کیسے بدتمیزی کو شرارت کا جامہ پہناتی ہیں، اس سے فیس بکیئے ناواقف تھے۔ ایسے ہی پھیکے پھیکے دور میں جب فیس بک کی پوسٹ نصابی کتب کے مضامین 'صبح کی سیر' اور 'ورزش کے فائدے' جیسی معلوم ہوتی تھی، ہم نے فیس بک استعمال کرنا شروع کی۔

فیس بک پر ہماری حالت وہ ہوتی تھی جو دیہاتی کی جدید واش روم میں جا کے ہوتی ہے

اس وقت تک ہمارے خاندان میں یہ وبا عام ہو چکی تھی لیکن ہم چونکہ نووارد تھے، اس لئے یہاں ہماری حالت بھی ویسے ہی تھی جیسے کسی دیہاتی کی جدید ترین واش روم میں جا کے ہوتی ہے۔ نہ دیہاتی کو واش بیسن پر دھری نصف درجن بوتلوں میں سے صابن کی شناخت ہو پاتی ہے اور نہ ہم کو سمجھ آتی تھی کہ کس پوسٹ پر کیا تبصرہ کرنا ہے۔

مخدوم بھائی ڈاکٹری نسخے کی طرح صبح دوپہر شام  الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے حوالے سے پوسٹس کیا کرتے تھے

فیس بک پر ہمارے ایک پیارے کزن مخدوم بھائی بھی ہوا کرتے تھے۔ (اب بھی ہیں لیکن ان کے ہاتھوں ہم بلاک ہو چکے ہیں)۔ مخدوم بھائی کٹر کراچی والے تھے اور اسی نسبت سے ایم کیو ایم کے جوشیلے رکن اور الطاف بھائی کے ڈائی ہارڈ قسم کے فین بھی تھے۔ خود بھی ڈاکٹر تھے اور ڈاکٹری نسخے کی طرح صبح دوپہر شام  الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے حوالے سے پوسٹس کیا کرتے تھے۔

"ہاتھی، مزدوروں کا ہاتھی ہے الطاف حسین"

ایک روز انہوں نے ایم کیو ایم کے مشہور ترانے "ساتھی، مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین" کے بول اپنے سٹیٹس پر درج کیے۔ ایم کیو ایم کے گڑھ لیاقت آباد کا رہائشی ہونے کے ناطے یہ گانا ہمارے کان میں اتنی بار پڑ چکا تھا، جتنی بار کہ شائد کبھی اذان بھی نہ پڑی ہو۔ مگر بہرے پن کا یہ عالم تھا کہ کبھی گانے کے اصل بول سمجھ نہ آئے تھے۔ عرصے تک ہم اس گانے کو یوں سمجھتے رہے تھے "ہاتھی، مزدوروں کا ہاتھی ہے الطاف حسین، الطاف حسین

ہم پر دو پہاڑ ٹوٹے تھے، ایک صدمے کا، دوسرا حیرت کا

مخدوم بھائی کی پوسٹ کا دکھنا تھا کہ ہم کو ایک بار پھر بچپن والے خوش مزاج سے مخدوم بھائی یاد آ گئے، جن کی گود میں چڑھ کے ہم خوب لاڈ اٹھوایا کرتے تھے۔ بچپن کی یادیں کیا تازہ ہوئیں، ہم خود دوبارہ بچے بن گئے اور لاڈ میں آ کے مخدوم بھائی کی پوسٹ پر اعتراف کر ڈالا کہ ہمیں گانے میں الطاف حسین 'مزدوروں کا ہاتھی' سمجھ آتا تھا۔ کچھ ہی وقفے کے بعد مخدوم بھائی کا رپلائی آیا جسے نہایت بے تابی سے اوپن کیا ۔ ویسے محاورے کے مطابق تو صدمے کا پہاڑ ٹوٹتا ہے لیکن ہم پر دو پہاڑ ٹوٹے تھے، ایک صدمے کا، دوسرا حیرت کا۔ وہ جن کی شائستگی کی دنیا مثالیں دیتی تھی، انتہائی درشتگی سے  بتا رہے تھے کہ الطاف بھائی کے خلاف وہ ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں اور وہ ہر قسم کی بدتمیزی برداشت کر سکتے ہیں لیکن الطاف حسین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے۔ چونکہ میں یہ غلطی کر چکی ہوں، اس لئے وہ مجھے ان فرینڈ کر رہے ہیں۔

'شیر کے منہ میں ہاتھ دینا آسان، سیاست پر مخدوم سے بات کرنا مشکل ہے'

اماں کو جب یہ قصہ سنایا تو وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئیں اور بولیں کہ ایم کیو ایم کے معاملے میں مخدوم کی بدتمیزی سے تو پورا خاندان واقف ہے، شیر کے منہ میں ہاتھ دینا آسان، سیاست پر مخدوم سے بات کرنا مشکل ہے۔ عرصے تک یہ خیال ذہن میں آتا رہا کہ کوئی سیاسی وابستگی کے لئے کیسے اپنوں کو ناراض کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب گذشتہ دور حکومت کے پانچ برس اور رواں انتخابات کے دوران مل گیا ہے۔

جب لیڈر خود ووٹر کو 'بےغیرت' 'گدھے' کہیں تو مداحوں کا کیا قصور؟

جب لیڈر خود ہی مخالف امیدوار کے ووٹرز کو بیغیرت اور گدھے جیسے القابات سے نوازیں تو اپنے کرشماتی لیڈران کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے والے فالوؤر حضرات بھی کیوں شائستگی کا دامن تھامے رکھیں گے؟





سوچتی ہوں کہ موجودہ نسل خوش قسمت ہے کہ وہ اس دور میں سیاسی شعور حاصل کر رہی ہے جہاں ہر شخص ہی اپنے لیڈر کی حمایت میں ادب احترام، رشتوں کا خلوص بھلا کے لیڈر کی ذات کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنائے بیٹھا ہے۔ آج اگر کوئی شخص اپنے ناپسندیدہ لیڈر کے بارے میں کوئی تبصرہ کرتا ہے تو وہ اس کے چاہنے والوں کی جانب سے گالیوں کی بوچھاڑ کے لئے تیار بھی ہوتا ہے۔ ہماری طرح مخدوم بھائی کے روئیے پر مہینوں افسردہ نہیں رہتا۔

پس نوشت: اب مخدوم بھائی کا جذباتی پن اس حد کو چھو چکا ہے کہ انہیں الطاف بھائی کے حق میں دلائل دیتے ہوئے دل کا دورہ بھی پڑ چکا ہے۔