Get Alerts

عوض نور قتل کیس: خاندان والے مجرمان کو خود ماریں، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا لواحقین کو مشورہ

عوض نور قتل کیس: خاندان والے مجرمان کو خود ماریں، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا لواحقین کو مشورہ
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ نوشہرہ میں پیش آنے والا واقعہ بہت افسوسناک ہے، جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے انسانیت کی تذلیل کی ہے، ان کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کیا جانا چاہیے، جبکہ میں کہوں گا کہ بچی کے خاندان والے ان کو خود ماریں انہیں خود سزا دیں۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے بیان پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جارہی ہے۔ 

صحافی و اینکر پرسن روف کلاسراء نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ محمود خان سے ہزار گنا بہتر تو اس معصوم اور مظلوم بچی کے وارث ہیں جنہوں نے لوگوں کو ملزم کو جلانے اور خود مارنے سے روک کر پولیس کے حوالے کیا۔

https://twitter.com/KlasraRauf/status/1220639863084593153?s=20

پاکستان میں آئے دن بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ شہریوں کا خیال تھا کہ پنجاب کے ضلع قصور میں زینب قتل کیس میں مجرم کو پھانسی کے بعد شاید یہ سلسلہ تھم جائے تاہم زینب کیس کے بعد بھی خیبر پختونخوا سمیت دوسرے صوبوں سے تواتر کے ساتھ بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔


ان میں حالیہ نوشہرہ میں آٹھ سالہ عوض نور کا قتل ہے، جسے کچھ دن پہلے مبینہ طور پر ریپ کے بعد پانی کی ٹینکی میں ڈبو کر قتل کر دیا گیا۔


ملزمان کون ہیں؟


عوض نور کے قتل کیس کے دو ملزمان میں سے ایک کا نام رفیق جبکہ دوسرے کا نام ابدار ہے۔ عوض نور کے ماموں آصف خان نے گذشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ ملزمان محلے میں ہی رہتے ہیں اور ان کی آپس میں کسی قسم کی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دشمنی۔


آصف نے بتایا کہ رفیق ٹیکسی ڈرائیور جبکہ ابدار مزدوری کرتے ہیں اور دونوں ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ آصف کے مطابق چونکہ دونوں ملزمان ایک ہی گاؤں کے تھے تو ان سے دعا سلام ہوتی رہتی تھی، لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔


آصف خان نے بتایا: ’رفیق کا تعلق اوسط گھرانے سے جبکہ ابدار غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، جو ہمسائے کے دیے ہوئے گھر میں رہتا ہے۔‘


انھوں نے بتایا کہ دونوں ملزمان کے رشتہ دار ڈر کی وجہ سے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔




اس حوالے سے بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کچھ سماجی کارکنوں سے بات کی تاکہ جان سکیں کہ کیا صرف قوانین سے ہی اس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہے یا پھر حکومت اور معاشرے کو کچھ اور اقدام بھی اٹھانے ہوں گے۔