ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
تحریر: (ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ)  میں کب تک ان کرپشن کی داستانوں سے اپنی جیب بھروں گا، میں چار ماہ سے تمام عملے کو تنخواہ اس ہی بچت سے دے رہا ہوں جو سابقہ کرپٹ منیجر نے مجھے دی تھی، تمہیں اس کام کا تجربہ نہیں تو پھر تم نے کام کرنے کی ہامی کیوں بھری؟ گاہکوں سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے، بگاڑ کر نہیں،  اب تم پرانے ریکارڈ کو اٹھا کر گھر لے جاؤ اور ان تمام ثبوتوں سے اگر تمہارا گھر چل سکتا ہے تو ٹھیک ہے، اب میں دوبارہ اس ہی کرپٹ شخص کو منیجر بنانے جا رہا ہوں۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل بہت بلند وبالا دعوے کئے تھے کہ نہ صرف سابقہ چوروں، غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا بلکہ  لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی واپس لائی جائے گی اور ایک پچاس لاکھ گھر،ایک کروڑ نوکریاں صرف 100 دن میںدی جائیں گی۔

ہمارا خیال تھا کہ 100 نہیں 200 دنوں میں تو ملک کی تقدیر بدل ہی جائے گی لیکن 300 دن گزر جانے کے باوجود صرف سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں سنیں، حکومتی کارکردگی کے باعث  مہنگائی کا سونامی آ گیا، اس کے علاوہ کاروباری حلقے سے چھیڑچھاڑ بھی جاری ہے، تاجر کو اعتماد اور عزت دینے کے بجائے ڈرایا، دھمکایا جا رہا ہے۔ ہر سرمایہ دار کو بلیک منی بنانے والا ثابت کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لوٹ مار کا نام دے کر مال غصب کرنے کی کوشش نہ سہی نیت تو ضرور نظرآ رہی ہے۔ اوپر سے نت نئے ٹیکس (بالخصوص ان ڈائریکٹ ٹیکس)نافذ کر کے ، ڈالر، پیٹرول، بجلی، گیس مہنگی کی جا رہی ہے ۔ جس سے رہی سہی تجارت کا بھی بیڑا غرق ہو رہا ہے۔

ایسے میں مجھ جیسا معیشت سے نابلد شخص بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ اس ماحول میں سرمایہ دار کبھی بھی انویسٹ نہیں کرے گا۔ جب سرمائے کی سرکولیشن نہ ہو گی تو اسٹاک ایکس چینج سے لے کر چھوٹی مارکیٹوں میں مندی کا رجحان غالب رہے گا جو آجکل ہے، ان عوامل سے مہنگائی اور بیروزگاری کا سونامی آئے گا۔ اب تو ویسے بھی جون قریب آ رہا ہے۔ جی جی’جون‘ہی کہا ہے ’خون‘نہیں لیکن وہی ’جون کا مہینہ‘جو بجٹ کے ذریعے عوام کا "رہا سہا خون بھی‘ نچوڑ لیتا ہے جس میں یہ حکومت ہتھوڑے سے عوام کو کوٹ کر اس کی چیخیں بھی بند کرنا چاہتی ہے، بقول خالد عرفان

پھر بجٹ اس نے گرایا ہے ہتھوڑے کی طرح

وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا

اس پر مستزاد عوام کو لولی پاپ دیا جا رہا ہے کہ دو ڈھائی سال کی مشقت مزید برداشت کر لو اس کے بعد دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، وہی نہریں جنہیں سو دنوں میں بہناتھا لیکن پچھلے تین سو دنوں کی کارکردگی یہ ہے کہ دوسروں کی کرپشن کی داستانیں سناتے سناتے اس حکومت کے چند وزراء نااہل ٹھہرتے ہیں، پھر چند وزراء کرپٹ ٹھہرتے ہیں اور پھر چند وزراء سامنے لائے جاتے ہیں۔ پھر بھی نئی ٹیم نئی افراد کی زبانوں پر صرف ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ہی ہر جگہ، ہرفورم، ہرمیڈیا سے سنی جارہی ہیں جن سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا، عوام کے کان یہ سن کر پک چکے ہیں " ہر برا کام ہے نواز شریف" اب آگے بھی بڑھو بھئی!

موجودہ حکومت کے طرز حکومت اور عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکلتی دیکھ کر مجھے ایک سچی کہانی یاد آ رہی ہے، اس موضوع پر زیادہ لکھنے کے بجائے وہی سچی کہانی بلاکسی تبصرہ کے پیش خدمت ہے:۔

یہ آج سے کم وبیش 30 سال پہلے کی بات ہے ، ایک شخص نے ایک پیٹرول پمپ خریدا اور اس پمپ پر اپنے دوست کو منیجر بنا دیا،  منیجر نے کامیابی سے اس پمپ کو تین چار سال چلایا،  پھر ایک تیسرا شخص جو ان دونوں کا دوست تھا پمپ کے مالک کے پاس آیا اوربہت راز داری سے منیجر کی شکایات کرنے لگا کہ آپ نے کس شخص کو منیجر بنا دیا ہے، وہ تو بہت کرپشن کرتا ہے، اس نے بڑے مگرمچھوں سے ساز باز کی ہوئی ہے جس کی بدولت پمپ کو ہزاروں کا نقصان ہو رہا ہے (اس زمانے میں ہزاروں بہت بڑی رقم تھی) یہی حالت باقی رہی تو کچھ ہی عرصہ میں پمپ گروی رکھنا پڑے گا۔ مالک اس شخص کی باتوں سے بہت متاثر ہوا،  اس نے منیجر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسی شکایت لے کر آنے والے شخص کو منیجر بنا دیا،  یہ شخص بہت دیانت دار تھا، اس نے آتے ہی پمپ کا سارا عملہ تبدیل کر دیا۔ سابقہ تمام ریکارڈ کی چھان بین کرنے لگا، اس کی تمام تر توجہ سابقہ منیجر کی کرپشن پکڑنے پر تھی،  آئے روز وہ مالک کو رپورٹ دیتا کہ فلاں بڑے تاجر سے اس کا ناجائزلین دین تھا، ان لوگوں نے پمپ کو مکمل لوٹ کھسوٹ لیا۔ مہینہ پورا گزرنے کے بعد مالک نے جب پمپ کی آمدنی چیک کی تو وہ عملہ کی تنخواہیں بھی نہ نکال پایا۔

اس نے منیجر سے بات کی، منیجر نے جواب دیا’’دوست ابھی میری توجہ سابقہ ریکارڈ کی چھان بین کی جانب تھی، سابقہ کرپشن پکڑنے پر تھی جس میں الحمدللہ! مجھے بہت کامیابی ملی ہے، اب کاروبار کو بھی بہتر بنالیں گے، لیکن ہنوز دلی دوراست۔ اگلے مہینے کی آمدنی بلکہ خسارہ اور وہ بھی جاریہ وہیں کا وہیں ’’جیسے صدقہ جاریہ ہوتا ہے،  کچھ امور میں خسارہ جاریہ ہوتا ہے‘‘ (موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے) جب تین چار ماہ میں آمدنی کے بجائے پمپ مستقل خسارہ جاریہ میں چلنے لگا تو مالک نے اس دیانت دار صاحب فراست منیجر کو اپنے دفتر میں بلوایا اور سابقہ منیجر کی کرپشن کی داستان سناتے سناتے گویا ہوا’’ جناب !میں کب تک ان کرپشن کی داستانوں سے اپنی جیب اورخزانے کو بھروں گا، میں چار ماہ سے تمام عملہ کو تنخواہ اپنی جیب سے دے رہا ہوں بلکہ اس ہی بچت سے دے رہا ہوں جو سابقہ کرپٹ منیجر نے مجھے کر کے دی تھی، تم نے کہا تھا! اگر اس منیجر کو اس کے عہدے پر برقرار رکھا تو پمپ گروی رکھنا پڑے گا جبکہ اب واقعی اگر تم ایک دو مہینے اور اس عہدے پر رہ گئے تو پمپ گروی رکھنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی بلکہ اسے اونے پونے بیچنا پڑے گا‘‘ پھر اس نے مرزا غالب کا یہ شعر پڑھا

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

تمہیں اس کام کا تجربہ نہیں تو پھر تم نے کام کرنے کی ہامی کیوں بھری؟  گاہکوں سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے، ان سے بگاڑی نہیں جاتی‘ تم نے زیادہ دیانت داری کے چکر میں گاہکوں کو پرانے منیجر سے لین دین کا الزام لگانا شروع کر دیا، یہ اس کے ساتھ ملا ہوا، وہ اس سے ملا ہوا ہے، لہذا وہ تمام کاروباری حضرات ایک ایک کر کے میرے پمپ سے رخصت ہو گئے،  اب تم پرانے ریکارڈ کو اٹھا کر گھر لے جاؤ اور ان تمام ثبوتوں سے اگر تمہارا گھر چل سکتا ہے تو ٹھیک ہے، یہ کہہ کر ا س نے منیجر کو باعزت انداز سے گھر رخصت کیا اور کہا ’’سابقہ منیجر کرپٹ تھا یا نہیں لیکن وہ مجھے کما کر ضرور دیتا تھا‘‘، اب میں دوبارہ اس ہی کرپٹ شخص کو منیجر بنانے جا رہا ہوں۔ اللہ حافظ