مولانا فضل الرحمان ٹھہریئے، لینے کے دینے نہ پڑ جائیں

مولانا فضل الرحمان ٹھہریئے، لینے کے دینے نہ پڑ جائیں
مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اردو کی اس کہاوت کے مترادف معاملات چل پڑے ہیں کہ  نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے۔ ایک طرف وہ پی ڈی ایم کے قائد کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان سے استعفی لینے چلے تھے اب انکی اپنی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام میں پھوٹ پڑتی نظر آرہی ہے۔ ایک طرف نیب کا شکنجہ کستا جا رہا ہے دوسری طرف انکی آپ اپنی سیاسی جماعت کے اندر آثار تلاطم ہیں۔ مولانا حافظ حسین احمد مولانا شیرانی کے بعد دوسرے رہنماؤں نے بھی نواز شریف کے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان جن کا شمار پاکستان کے گھاگ ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے تاش کی بازی اب انکے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔

مولانا کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پچھلے 40 سالوں میں ہمیشہ ہیت مقتدرہ کے پسندیدہ سیاست دان رہے ہیں۔ پہی حال نواز شریف کا بھی رہا ایک کو پنجاب اور دوسرے کو خبیر پختونخوا اور بلوچستان میں ہمیشہ بیت مقتدرہ کے اہم ترین مہرے کے طور پر استعمال ہوتے دیکھا گیا ہے۔ مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے پر جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے۔

بیت مقتدرہ نے پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں عمران خان کو نواز شریف اور فضل الرحمان کے متبادل کے طور پر استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی۔ عمران پرویز مشرف دور میں فوج کے سیاسی کردار پر بہت زیادہ تنقید کرتے تھے۔ مگر پاشا نے انکے کان میں کوئی ایسا صور پھونکا کہ وہ یکایک بیت مقتدرہ کے پیارے ہو گئے اوراپنے آزمودہ مہروں کی بحائے ان پر دست شفقت رکھ دیا گیا۔ یہ بات نواز شریف اور فضل الرحمان سے اب تک ہضم نہیں ہو پا رہی۔ وہ اس جنگ میں  اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ عمران خان سے ایک ذاتی نفرت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

شہرہ آفاق ناول گاڈ فادر میں مایو پوزہ لکھتا ہے اپنے دشمن سے اتنی نفرت نہ کرو کہ تم اس حد تک چلے جاؤ کہ فیصلے کرتے وقت عقل و شعور سے بھی عاری ہو جاؤ۔ یہ کچھ اب مولانا فضل الرحمان جسے گھاگ سیات دان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ خبیر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ہاتھوں مکمل شکست کے علاوہ مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنے آبائی حلقے سے بھی علی امین گنڈاپور سے ہار گئے۔ بلوچستان سے جمیعت علماء اسلام کچھ سیٹوں پر کامیاب ہو گئی جس کی وجہ سے ان کا کچھ بھرم قائم رہ گیا۔ مگر وہاں کے جمیعت علماء اسلام کے لیڈر، حافظ حسین احمد مولانا شیرانی اور دوسرے علم بغاوت اٹھا چکے۔  ایک طرف نیب خاموشی سے مولانا فضل الرحمان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گواہوں کو تیار کر رہی ہے تو دوسری طرف انکی اپنی سیاسی جماعت بلوچستان میں جہاں وہ طاقت میں ہے وہاں مولانا فضل الرحمان کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔

مولانا جسے زیرک اور گھاگ سیات دان کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔ وہ مشرف دور میں  قائد حزب اختلاف رہے سرکاری گھر اور گاڑی استعمال کرتے رہے ،زرداری اور نواز شریف دور کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے وفاقی وزیر کی مراعات حاصل رہیں۔ اب سب کچھ انکے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اسلام آباد میں سرکاری گھر رہا نہ گاڑی رہی ان کاغصے میں  آنا فطری ہے۔  پچھلے سال بغیر سوچے سمجھے لانگ مارچ کیا اب پی ڈی ایم کے ساتھ جلسے کر رہے ہیں۔ مگر نتیجہ وہی دھاک کے تین پات والا ہے۔

یہ طے ہے نواز شریف نے وطن واپس نہیں آنا وہ الطاف حسین ثانی بن رہے ہیں مگر مولانا فضل الرحمان کی سیاسی زندگی پاکستان تک ہی محدود ہے۔ باہر وہ کہیں جا نہیں سکتے۔ لہٰذا ان کو اپنے فیصلوں پر ازسرنو غور کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ نمازوں کا حساب دینے دیتے روزے گلے پڑ جائیں۔ 

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔