خط کے متن میں قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 50 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت صرف 16 ججز ان مقدمات کی سماعت کے لئے موجود ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بوجھ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال رواں میں پانچ جج سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ابھی تک ان پانچوں کی جگہ نئی تعیناتیاں عمل میں نہیں لائی گئیں۔ انہوں نے لکھا کہ ان ججوں کی غیر موجودگی میں سپریم کورٹ کے اب تک 726 قیمتی دن ضائع ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ سے 2022 میں ریٹائر ہونے والے ججوں میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس قاضی محمد امین احمد، جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ آئین پاکستان عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا حق دیتا ہے اور یہ ذمہ داری سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے جس کے چیف جسٹس آپ ہیں۔ پاکستان کے عوام کی امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں، ہمیں ان امیدوں کو نہیں توڑنا چاہئیے اور عوامی وسائل کو ضائع ہونے سے روکنا چاہئیے۔
اس سے قبل بھی میں بارہا آپ سے گزارش کر چکا ہوں کہ آپ اپنا آئینی فرض نبھائیں اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کو اپنا فرض نبھانے دیں۔ ایک بار پھر میں گزارش کرتا ہوں کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا جائے۔
یاد رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں پانچ ججز کی جگہ خالی ہے اور ان میں سب سے پہلے خالی ہونے والی سیٹ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ہے جو قریب آٹھ ماہ سے خالی پڑی ہے۔
کتنے دن سے سیٹ خالی ہے | ریٹائرمنٹ کی تاریخ | جج کا نام |
239 | یکم فروری | گلزار احمد |
187 | 25 مارچ | قاضی محمد امین احمد |
177 | 4 اپریل | مقبول باقر |
77 | 13 جولائی | مظہر عالم خان میاں خیل |
46 | 13 اگست | سجاد علی شاہ |
گذشتہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پیدا ہونے والا تنازع
اس سے قبل 28 جولائی 2022 کو جوڈیشل کمیشن کا ایک اجلاس انتہائی متنازع صورتحال پر منتج ہوا تھا کہ جب چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججز کو کمیشن نے 4 کے مقابلے میں 5 ووٹس سے مسترد کر دیا تھا لیکن چیف جسٹس نے اس کی تشریح یوں کی تھی کہ اجلاس دوبارہ بلایا جائے گا اور وہاں انہی نامزدگیوں کو دوبارہ پیش کیا جائے گا۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اس فیصلے پر تمام ارکان جنہوں نے ان نامزدگیوں سے اختلاف کیا تھا، بعد ازاں خطوط لکھ کر اپنی پوزیشن واضح کر چکے ہیں کہ ان کے دلائل کی چیف جسٹس کی جانب سے کی گئی تشریح درست نہ تھی۔
یہ اجلاس بلائے جانے سے پہلے ہی متنازع اس وقت ہو گیا تھا جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط لکھ کر اس اجلاس کے بلائے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ایک خط کے ذریعے چیف جسٹس سے شکایت کی تھی کہ جب وہ روسٹر کے مطابق چھٹیوں پر ہیں اور ملک سے باہر تشریف رکھتے ہیں تو ایسے موقع پر اجلاس بلانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تاہم، ان کے لئے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایا گیا تھا اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی جو کہ امریکہ میں موجود تھے، ان کی شرکت بھی بذریعہ ویڈیو لنک ہی ممکن ہو سکی تھی۔
ایک اور متنازع نکتہ یہ تھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ جو 14 اگست 2022 کو ریٹائر ہونے جا رہے تھے، یہ اس کمیشن میں موجود تھے اور ابھی حاضر سروس ہی تھے کہ ان کی جگہ نئے جج کو تعینات کرنے کا فیصلہ اس کمیشن کا حصہ ہوتے ہوئے یہ خود ہی کر رہے تھے۔ اس کی بھی تشریح یہ کی گئی تھی کہ کوئی جج اپنی جگہ نیا جج تعینات کرنے کا مجاذ کیسے ہو سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار ہے کہ وہ ججز کی نامزدگیاں کرے۔ یہ اختیار محض چیف جسٹس کا نہیں۔
حال ہی میں چیف جسٹس نے معاملہ دوبارہ اٹھایا
اس حوالے سے آنے والے خطوط نے اس تنازع کو مزید ہوا دی۔ اور حال ہی میں نئے جوڈیشل سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے یہ الفاظ اس کو ایک بار پھر زندہ کر گئے جب انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ پنجاب وزارتِ اعلیٰ کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دینے کے باعث حکومتی نمائندگان نے ان کی نامزدگیوں سے اختلاف کیا تھا۔ اس پر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے ایک خط میں اپنا مؤقف بیان کیا تھا جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس کی نامزدگیوں کے خلاف آنے والے ووٹس میں اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون کے علاوہ پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور یہ دونوں جج حضرات یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کھوسہ بھی شامل تھے۔