اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے دوستی ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ اچانک پولی تکنیک کالج پشاور روڈ ، راولپنڈی (موجودہ ای ایم ای کالج) والے واقعے کی یاد آ گئی۔ لکھنا شروع کیا لیکن کچھ سر درست نہیں لگ رہے تھے۔ اپنے سے 22 برس بڑے دوست افضل رضوی صاحب کو فون کیا۔ واقعے کو انہوں نے یاد دلایا۔ پھر ایک اور دوست شاہد مسعود صاحب جو افضل بھائی کے بھی دوست ہیں، سے رابطہ کیا اور یوں پسِ منظر مزید مضبوط کیا۔ اگر پھر بھی کچھ کمی رہ گئی ہو یا حقائق درست نہ ہوں تو ضرور رہنمائی کیجیے گا۔ یہ دونوں قابل احترام دوست گارڈونین ہیں یعنی راولپنڈی کے تاریخی گارڈن کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ گارڈن کالج جس کا پرنسپل کسی زمانے میں برطانوی گورا ہوا کرتا تھا اور یہ ادارہ علم کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ آج کل ہر ٹٹ پونجیا اسی کالج میں گریڈ 17 میں با آسانی بھرتی ہو جاتا ہے اور اپنی جہالت آنے والی نسلوں میں بنا کسی دقت منتقل کرتا رہتا ہے۔
نومبر 1968 کا زمانہ ہے۔ اقتدار کی لگام فوجی آمر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھ میں ہے۔ پولی تکنیک کالج کے کچھ طالب علم ایک پرامن جلوس نکالتے ہیں۔ پولیس گولی چلا دیتی ہے۔ ایک طالب علم شہید ہو جاتا ہے۔ دوسرا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ گارڈن کالج راولپنڈی کے طالب علم لنڈی کوتل سے پنڈی لوٹ رہے ہیں۔ ایک تعلیمی دورہ ختم کرکے۔ اٹک کے مقام پر کسٹم والے ان کا سامان ضبط کر لیتے ہیں۔ پھر تیسرا واقعہ ہوتا ہے۔ اسی کالج کا ایک طالب علم عبدالمالک چاقوؤں کے وار سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ یہ المناک واقعہ کالج کے عقب میں رونما ہوتا ہے۔ قاتل ہمیشہ کی طرح سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ کچھ پتہ نہیں لگتا کہاں سے آئے، کدھر کو گئے۔ غم و غصے کے عالم میں شاہد مسعود، افضل رضوی، راجہ انور، پرویز رشید، عرفان مروت، رشید احمد اور دیگر سیکرٹریٹ نمبر 2 (وزارت دفاع) کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو (بلاول کے نانا حضور) فوراً حرکت میں آتے ہیں۔ انہیں مقتولین کا نام بھی معلوم نہ تھا۔ لیکن اپنی شعلہ بیانی سے ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف وہ آگ بھڑکانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس میں اس کا قلعہ بھسم ہو جاتا ہے اور وہ اقتدار سے الگ ہو جاتا ہے خاموشی سے!
اب 54 برس بعد ہم وہی فلم دوبارہ دیکھ رہے ہیں۔ سکرپٹ معمولی سا مختلف ہے۔ شہید ہونیوالے دونوں طالب علم کوئی اینکر وینکر نہ تھے۔ نہ وہ کوئی نام نہاد تحقیقاتی صحافی تھے۔ نہ یو ٹیوبر۔ نہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ! ان کی شہادت کی مختصر خبر صرف روزنامہ نوائے وقت نے لگائی جو ہمیشہ سے فوجی آمروں کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ دوسری جانب ارشد شریف تو پی ٹی آئی کا کل وقتی ترجمان تھا۔ رات دن اس کے دفاع میں ایک کرتا تھا۔ دور دور کی کوڑی نکال کر لاتا تھا جس سے یہ ثابت کرسکے کہ عمران خان ہی خدا ہے۔ جو اس کی بات سے اتفاق نہ کرتا، لائیو ٹی وی پروگرام میں اس سے جھگڑنے لگ جاتا۔ ہاتھا پائی سے بھی گریز نہ کرتا تھا۔
اسی ارشد نے ایک دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ میری جان خطرے میں ہے کچھ اپائے کیجیے۔ کچھ نہ ہوا۔ نڈر، بے باک، بے خوف اور بہادر صحافی کو روپوش ہونا پڑا۔ پہلے دبئی میں پھر کینیا میں۔ مگر فرشتہ اجل وہیں آتا ہے جہاں موت لکھی ہو۔ کینیا پولیس نے مار دیا۔ ارشد کے قتل نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس قتل کی بھرپور مذمت کی۔ حتی کہ جن پر ارشد رات دن کیچڑ اچھالتا تھا مثلاً حامد میر، ابصار عالم، اسد طور، عمر چیمہ، پشتون نیشنلسٹس وغیرہ، ان سب نے اس کے قتل کی مذمت کی اورغم گیرہوئے۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! تو بس عمران خان کو ایک لاش مل گئی سیاست کرنے کو اور وہ اپنے آپ کو بھٹو سمجھ بیٹھا۔ ارشد کی لاش خان کے لیے ایک 'نو بال' ثابت ہوئی۔ اس نے فوراً وکٹیں چھوڑ دیں اور کریز سے باہر نکل آیا، اس یقین کیساتھ کہ اب بھی بڑا چھکا مارے ہی مارے۔ لیکن اس کی عاقبت نااندیشی اور جلد بازی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ یہ ایک خطرناک رن لیتے ہوئے رن آؤٹ ہو جائے!
خان صاحب آپ کہیں سے بھی بھٹو تو کیا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ بھٹو پر آج تک کوئی کرپشن کا الزام تک نہ لگا سکا۔ لیکن آپ تو certified چور مشہور ہو چکے۔ بھٹو کی جنگ ایک آمر کیساتھ تھی اور آپ اپنے سابقہ مالکان سے گلے شکوے کر رہے ہیں جنہوں نے آپ کو وہ بیساکھی عطا کی جس کی مدد سے آپ وزیراعظم ہاؤس میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئے۔ جب وہ بیساکھی آپ سے چھین کر کسی اور ضرورت مند 'شریف' انسان کو تھما دی گئی تو آپ آپے سے باہر ہو گئے۔ اپنے ہی نشیمن پر گرانے لگے بجلیاں! آپ کا لانگ مارچ ایک بھونڈا لاہوری تھئیٹر ہے۔ لانگ مارچ تو کیا تھا وکلا نے 9 مارچ 2007 میں۔ کیسے اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی مشرف کے اقتدار کی۔ ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا اس کمانڈو کو جو ہوا میں مکے لہرایا کرتا تھا۔
بھٹو تو ایک نہیں دو دو آمروں سے لڑا۔ پر اس وقت تو کوئی آمر اقتدار پر قابض نہیں۔ آپ کے لانگ مارچ کی تان یہاں ہی آ کر ٹوٹتی ہے کہ واپس کر دے یہ بیساکھی! یا یہ کہ میں نے اپنا یوتھیا آرمی چیف لگانا ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہے آپ کے لانگ مارچ میں؟
اور آپ کبھی بھی بھاری مینڈیٹ والے وزیرِاعظم بھی نہ تھے۔ شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، فیصل واؤڈا، عامر لیاقت، فردوس عاشق اعوان ایسے لوٹے اور لوٹیاں آپ کی جیب میں تھے جو بیساکھی کے علاوہ آپ کو اقتدار میں لائے۔ ویسے جن کے پاس دو تہائی ایسا بھاری مینڈیٹ تھا وہ ان پر آ کر ایسا گرا کہ اس کے بوجھ تلے اٹھ نہ سکے۔ اگر آپ کے پاس بھی ایسا بھاری مینڈیٹ ہوتا تب بھی بنا 'بیساکھی' آپ وزیرِ اعظم ہاوس کے گیٹ تک نہ پہنچ سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ یوتھیوں کی ایک فوج آپ پر جان چھڑکتی ہے لیکن یہ کسی کام کے نہیں، سوائے اس کے کہ آپ کے مخالفین کی کردار کشی کریں گندی اور غلیظ گالیوں اور جعلی وڈیوز کے ذریعے۔ فوج کے لیے چنداں مشکل نہیں آپ کو نتھ ڈالنا۔ وہ جب چاہے آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دے۔ ابھی وہ صرف صبر سے کام لے رہی ہے۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ہی ڈالیں تو بہتر ہے، مگر دور اندیشی سے آپ کا کیا لینا دینا!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔