روزگار کے مناسب وسائل نہ ملنا پاکستانی اقلیتی برادری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے

روزگار کے مناسب وسائل نہ ملنا پاکستانی اقلیتی برادری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں روزگار کی عدم دستیابی بھی ان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ روزگار کی عدم دستیابی کی وجہ سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اہلیت کے برعکس ملازمت کر رہے ہیں جبکہ کئی افراد ایسے کام کرنے پر بھی مجبور ہیں جو ان کے مزاج سے مطابق نہیں رکھتے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے تو دور کی بات، نجی اداروں میں بھی اچھی ملازمت کا حصول ان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ وسائل ہونے کے باوجود بھی وہ کاروبار نہیں کر سکتے کیونکہ اقلیت سے تعلق ہونے کی بنا پر ان سے امتیازی سلوک ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے لئے روزگار کے مواقع محدود ہوتے جا ر ہے ہیں۔ اقلیتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے لئے روزگار کی عدم دستیابی کی بڑی وجہ سرکاری طور پر ان کی آبادی کو کم ظاہر کیا جانا ہے۔ آبادی میں کمی کی وجہ سے ان کے لئے وسائل اور روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔

اقلیتوں کی آبادی میں کمی کا مسئلہ

1951 میں کی گئی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل 3 کروڑ 40 لاکھ کی آبادی میں پانچ فیصد غیر مسلم تھے جن کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ سینٹر فار سوشل جسٹس (سی ایس جے) کی سال 2022 میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق احمدی کیمونٹی کو اقلیت میں شامل کئے جانے کے باوجود اقلیتی آبادی میں 21 فیصد تک کمی تشویشناک ہے۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کے چیف ایگزیکٹیو پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی آبادی 3.73 فیصد تھی جو 2017 کی مردم شماری میں کم ہو کر 3.52 فیصد رہ گئی ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے جن میں مسیحی 2.64 ملین، ہندو 3.6 ملین، احمدی 0.19 ملین، شیڈول کاسٹ 0.85 ملین اور دیگر مذاہب کے لوگ 0.4 ملین ہیں۔ مردم شماری کے نتائج میں اقلیتی آبادی میں اضافے کے بجائے اقلیتوں کی تعداد میں کمی مذہبی اقلیتوں کے لئے باعث تشویش ہے۔

نادرا کا ریکارڈ مردم شماری کے نتائج کی تصدیق سے قاصر

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سال 2022 کے ریکارڈ کے مطابق مسیحی آبادی 26 لاکھ 42 ہزار 48 نفوس پر مشتمل ہے، ہندو آبادی 35 لاکھ 95 ہزار 256، احمدی 1 لاکھ 91 ہزار 737، شیڈول کاسٹ 8 لاکھ 49 ہزار 614 اور دیگر مذاہب کی آبادی 43 ہزار 253 نفوس پر مشتمل ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن اور انسان فاؤنڈیشن کی کیمونیکشن آفیسر عکسہ کنول کا کہنا ہے کہ افراد کے حوالے سے اعدادوشمار مرتب کرنے والا سب سے معتبر ادارہ نادرا بھی مردم شماری کے اعدادوشمار کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مردم شماری میں شیڈول کاسٹ افراد کو ظاہر کیا گیا ہے مگر نادرا کے پاس کسی ایک بھی شخص نے اپنی شناخت شیڈول کاسٹ کے طور پر درج نہیں کروائی۔ اسی طرح مردم شماری میں کچھ اقلیتوں کی شناخت کے لئے 'دیگر' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ نادرا کے ریکارڈ میں دیگر مذاہب کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔

آبادی میں کمی کے حوالے سے عوام کی رائے

غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے بھی اقلیتوں کی آبادی میں کمی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ خاتون صحافی نورالعین کا کہنا ہے کہ اقلیتی آبادیوں کے سروے کے دوران یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ان کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پانچ سال پہلے جس گھر میں تین افراد رہتے تھے اب وہاں آٹھ سے دس لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود سرکاری اعدادوشمار میں اقلیتی آبادی میں کمی ظاہر کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

کرسچین ٹاؤن فیصل آباد کی رہائشی روبینہ بھٹی کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی ایک بہن اور دو بھائی تھے، اس طرح ان کے خاندان میں شامل افراد کی کل تعداد 4 بنتی تھی۔ ہم لوگ تین بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، ہماری تعداد آٹھ بنتی ہیں۔ ہمارے پورے خاندان میں بزرگوں کی تعداد کی نسبت اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود بتایا جا رہا ہے کہ آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔

ملازمت کیلئے کوٹہ سسٹم پر عمل درآمد نہ ہونا

اقلیتوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ سرکاری ملازمتوں کے لئے مختص کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی شکیلہ جاوید نجی سکول میں بطور ٹیچر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے باوجود ان کو کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں ملی جس کی بڑی وجہ ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے مختص کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔

عمانوائیل مسیح ایک نجی کمپنی میں بطور سٹور مینیجر کام کر رہے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ عمر کے لحاظ سے سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے کے لئے اہل تھے اس وقت کوٹہ سسٹم کے تحت اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی بھرتی پر پابندی عائد تھی۔ اب جبکہ وہ سرکاری ملازمت کے لئے مطلوبہ عمر کی حد عبور کر چکے ہیں تو کوٹہ سسٹم رائج تو کردیا گیا ہے مگر اس پر بھی کلی طور پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

اقلیتوں کیلئے مختص کوٹے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟

ایڈووکیٹ شازیہ گل کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے وقت آسامیوں کا اعلان اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ اقلیتوں کے لئے مختص کوٹے پر عمل درآمد ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے لئے جو طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اس کے مطابق بھرتیوں کا اعلان ایک بار نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف فیز میں بھرتیاں کی جاتی ہیں تا کہ اسامیوں کی تعداد کم رہے اور اقلیتوں کے لئے مختص کوٹے پر عمل درآمد نہ ہوسکے۔

پاکستان بالمیک سبھا کی نمائندہ رتنا جی کا کہنا ہے کہ بااثر اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد تو کوٹہ سسٹم کے تحت بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں مگر کمزور اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد درجہ چہارم تک ہی محدود رہتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے تحت جب درجہ چہارم کی اسامیوں کا بھی اعلان کیا جاتا ہے تو اقلیتوں کو محض صفائی کے کام تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔

مختص اسامیوں سے متعلق اقلیتی کمیشن کی رپورٹ

اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے قائم کئے گئے ون مین اقلیتی کمیشن (شعیب سڈل) کی جانب سے سال 2021 میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے مختلف سرکاری محکموں میں اقلیتوں کے لئے مختص 19 ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کی جانب سے ان تمام اسامیوں پر بیک وقت بھرتی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے بیک وقت بھرتیوں کے معاملے پر اعتراضات اٹھا دیے گئے تھے۔ محکمہ خزانہ کی جانب سے اقلیتوں کے لئے مختص اسامیوں پر بیک وقت بھرتی کے لئے جو اعتراضات اٹھائے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ بھرتی کے لئے مزید ورکنگ اور مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزرات انسانی حقوق اس حوالے سے مزید ورکنگ کر کے روڈ میپ تیار کرے تا کہ بھرتیوں میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہ رہے۔

ان اعتراضات کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں اقلیتوں کے لئے مختص یہ 19 ہزار اسامیاں تاحال خالی ہیں اور ان پر بھرتی نہیں ہوسکی۔ شعیب سڈل کمیشن رپورٹ سے اقلیتوں کے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

مقابلے کے امتحان میں مختص اسامیوں پر بھرتی کیلئے مشکلات

پاکستان میں مقابلے کے امتحان یعنی سی ایس ایس میں خواتین اور اقلیتوں کی اسامیوں پر بھرتی کے عمل میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک بھر میں سی ایس ایس کے لئے اقلیتوں کی مختص 100 سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ اقلیتوں کے لئے سی ایس ایس ہر صوبہ سے پانچ فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے۔ ماہر تعلیم زریں منور کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے حکومتی سطح پر سی ایس ایس کے امتحانات میں حصہ لینے والے اقلیتی امیدواروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اس سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سنٹرل سپیریئر سروسز کا حصہ بن سکتے ہیں۔

سی ایس ایس کے رولز کے مطابق اقلیتوں کے لئے مختص اسامیوں پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی بھرتی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود اقلیتوں کی اسامیوں کا خالی رہنا تشویشناک ہے۔ سی ایس ایس کے حوالے سے میسر اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اقلیتوں کے لئے مختض اسامیوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے حبقوق گل نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اقلیتی امیدواروں کے حوالے سے سی ایس ایس امتحانات کی شرائط نرم کرنے کا کہا تھا۔ موجودہ حکومت کو بھی اس تجویز پر عمل درآمد کرنا چاہئیے بصورت دیگر سی ایس ایس کے لئے اقلیتی امیدواروں کا کوالیفائی کرنا مشکل ہے۔

اپنا کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے مسائل

پطرس مسیح کی عمر 65 سال ہے۔ ان کا تعلق مسیحی برادری سے ہے اور وہ رکشہ چلاتے ہیں۔ پطرس مسیح کا کہنا ہے کہ وہ ایک سکول کے سامنے نان ٹکی اور پکوڑے بیچتے تھے۔ پھر ان کے ساتھ ایک شخص نے ریڑھی لگانی شروع کر دی اور کہنا شروع کر دیا کہ یہ مسیحی ہے جس کی وجہ سے بچوں اور بڑوں نے اس سے نان ٹکی وغیرہ لینا بند کر دیا۔ اس کی وجہ سے وہ اب رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔
نسرین بی بی کا تعلق بھی مسیحی برادری سے ہے اور وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ نسیم بی بی کا کہنا ہے کہ جب وہ ملازمت کے لئے کسی فیکٹری میں جاتی ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ صفائی کا کام کر لے اور معاوضہ انتہائی کم بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے گھروں کا کام کرکے گزارہ کر رہی ہے۔

نوئیل جان ایک سٹور میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔ نوئیل کا کہنا ہے کہ وہ سٹور میں بطور سیلز بوائے کام کرنے آئے تھے مگر انہیں صفائی کے کام پر لگا دیا گیا۔ چونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا کام نہیں ہے اس لئے وہ مجبوری کے عالم میں یہ کام کر رہے ہیں۔

روزگار کی فراہمی کیلئے ناگزیر اقدامات

مذہبی اقلیتوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے بہتر روزگار کی فراہمی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کے لئے روزگار کی فراہمی میں سنجیدہ ہے تو ٹاسک فورس تشکیل دی جانی چاہئیے جس میں حکومتی عہدیداران کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے نمائندگان کو بھی شامل کیا جائے تا کہ اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔ مزید براں مردم شماری کے حوالے سے اقلیتوں کے جو تحفظات ہیں ان کو بھی دور کیا جانا چاہئیے تا کہ اقلیتوں کے لئے وسائل کی تقسیم اور روزگار کی فراہمی کے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں۔

سمیر اجمل کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔