روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ عالمی جنگ کی شکل اختیار کر رہی ہے

روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ عالمی جنگ کی شکل اختیار کر رہی ہے
ہمیں سمجھ لینا چاہئیے کہ طاقت کی جنگ میں اخلاقیات نہیں دیکھی جا سکتی۔ جنگ چاہے طاقت کی ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی؛ جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جنگ بے رحم ہوتی ہے۔

چاہے اس کی مثال امریکہ اور سوویت یونین کی لی جائے، 1970 کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں پاکستان اور انڈیا کی، ویت نام اور امریکہ کی، الجیریا اور فرانس کی یا پھر پہلی عالمی جنگ کی یا دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جس نے جاپان کی سرزمین کو ایٹم زدہ بنایا تھا اور جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

اسی طرح اب یہی تجربے روس اور یوکرین کی جنگ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ دنیا کی عالمی طاقتوں میں شمار روس گزشتہ سال سے یوکرین کے ساتھ شدید جنگ لڑ رہا ہے جو اب تک جاری ہے۔ اس جنگ میں روسی ریگولر آرمی کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ فوجیوں کا دستہ 'ویگنر گروپ' کے نام سے بھی محاذ جنگ پہ ہے۔ روس نے جنگ میں عالمی اخلاقی تشویش ناکیوں کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنی جیلوں میں بند قیدیوں کو بھی جنگ میں شامل کر لیا ہے۔

قیدیوں کو یہ لالچ دیا جا رہا ہے کہ چھ ماہ تک جنگ کریں، اگر غازی ہوئے تو بقیہ ساری سزا معاف کر دی جائے گی۔ اس سے روس یہ فائدہ بھی حاصل کر رہا ہے جہاں کہیں بھی یوکرین میں روس کی جانب سے اگر اخلاقی حدیں تجاوز ہو جائیں تو روس یہ جواز پیش کرے گا کہ جی یہ ہمارے پیشہ ور فوجی نہیں بلکہ سزا یافتہ قاتل، ریسپٹ اور چور ہیں جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔

کچھ روز پہلے عالمی میڈیا میں ایک بریکنگ نیوز چلی کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹس یعنی عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ جو قارئین، ناظرین اور سامعین آئی سی سی کے بارے نہیں جانتے ان کے لیے یہ بڑی خبر تھی لیکن روس کے لیے ردی کے برابر۔

دراصل روس آئی سی سی کے اختیارات کو مانتا ہی نہیں۔ جیسے امریکہ، سعودی عرب، چین اور انڈیا بھی آئی سی سی کے اختیارات کو نہیں مانتے۔

آئی سی سی دراصل اکثر مغرب ممالک کی ایک کورٹ ہے جسے وہ فنڈنگ کرتے ہیں۔ کسی دوسرے ملک کے مجرم کو سزا دینے کے لیے یہ اسی کورٹ سے رجوع کرتے ہیں اور یہ کورٹ ان ممالک کے مسائل پر انصاف دیتا ہے جو اسے فنڈ کرتے ہیں۔ سزا یافتہ قیدی کو پھر کسی دوسرے اتحادی ملک کے ہاں جیل میں ڈالا جاتا ہے۔

اب اس میں کوئی شک نہیں کہ روس، یوکرین جنگ انتہائی تباہ کن ہے۔ یہاں صرف دو فریق جنگ نہیں کر رہے بلکہ اس میں بہت سی عالمی طاقتیں روس یا یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی مدد فراہم کر رہی ہیں۔

اس وقت یورپ، برطانیہ، امریکہ سمیت سعودی عرب بھی یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی امداد دے چکے ہیں۔ یوکرینی محاذ پر مغرب اور امریکہ کی جانب سے دی گئی توپیں، بندوقیں، ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم جنگ میں استمعال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ یوکرینی فوجیوں کو فوجی تربیت بھی دے رہا ہے۔

حال ہی میں چینی صدر نے روس کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ چینی صدر کے دورے کے بعد ماہرین روس کو مدد دینے کا دورہ بھی سمجھ رہے ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ کے بعد سے روس کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔ روسی برآمدات اب بہت کم ہو گئی ہیں۔ ایسے میں اب چین روسی مصنوعات کو خرید رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین اب روس سے 100 فیصد سے بھی زیادہ گیس خرید رہا ہے۔ لیکن بارہا امریکہ چین کو تنبیہ کر رہا ہے کہ روس کی مدد نہ کریں۔ امریکہ نے سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں چین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین اور روس باز رہیں ورنہ ہم ایسے مواد پبلک کر سکتے ہیں جہاں چین کی جانب سے روس کو امداد دینے کے شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔

لیکن یہ بھی کوئی پوائنٹ نہیں کہ چینی صدر کا دورہ روس دراصل روس کو امداد دینے کے لیے تھا۔ اگر ایسے میں دیکھا جائے تو روس یوکرین جنگ کے دوران ہی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی روس کے دورے کر چکے ہیں لیکن کسی بھی عالمی طاقت کی جانب سے پاکستان کو تنبیہ نہیں کی گئی۔

چین روس کو ڈرونز وغیرہ دے رہا ہے لیکن چین کے مطابق یہ پرانے معاہدوں پر عمل درآمد ہے۔

یہ چین کے لیے نقصان دہ ہوگا کہ امریکہ ایسے ثبوت میڈیا تک لائے جہاں ایسے شواہد موجود ہوں کہ چین روس کی مدد کر رہا ہے۔ کیونکہ حال ہی میں چین نے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اور ملک یہ یقین کرنے لگ جائے کہ چین اندر ہی اندر کچھ اور کر رہا ہے تو چین اپنا بین الاقومی اعتبار کھو سکتا ہے۔

ایسے میں اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے اور یوکرین کو امداد بھی دے چکا ہے۔

چین یورپ اور امریکہ کے ساتھ بڑی تجارت کر رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں چین روس کے ساتھ 107.8 ملین ڈالر کی تجارت کر چکا ہے لیکن چین کی یورپ اور امریکہ کے ساتھ تجارت 1269 ملین ڈالر کی رہی ہے۔ ایسے میں اگر چین روس کی مدد کرتا ہے تو اپنے بڑے تجارتی اتحادیوں کو کھو سکتا ہے۔

شمالی کوریا نے بھی روس کو مدد دینے کی پیش کش کر دی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ روس یوکرین جنگ کس سمت جائے گی تاہم اتنا واضح ہے کہ ایک طرف یورپ ، برطانیہ اور امریکہ جیسی بڑی طاقتیں روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین کی مدد کر رہی ہیں تو دوسری جانب شمالی کوریا نے روس کی مدد کا عندیا دے دیا ہے اور ممکن ہے کہ چین بھی روس کی مدد کرے۔

ابھی تک یہ جنگ پروکسی جنگ کے طور پہ لڑی جا ری ہے جہاں امریکہ و پورپ کی جانب سے دیا جانے والا دفاعی سامان یوکرین کی سرزمین پر روس کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور ممکن ہے چینی ساختہ دفاعی سامان روسی فوجیوں کے ہاتھوں میں آ جائے۔ یہ جنگ اب عالمی بنتی جا رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ یہی عالمی طاقتیں شام، عراق اور افغانستان جیسے مسلم ممالک کی سرزمین پر پروکسی جنگیں لڑ رہی تھیں اور اب پروکسی جنگ انہی کی سرزمین کو کھنڈرات میں بدل رہی ہے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔