پی ٹی آئی جیسے بنائی گئی ویسے ہی اسے ختم کیا جارہا ہے

پی ٹی آئی جیسے بنائی گئی ویسے ہی اسے ختم کیا جارہا ہے
پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ریاستی جبر سے کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کی legacy کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر تاریخ کے صفحات کھنگالے جائیں تو یہ بات مکمل طور پر درست ثابت ہوتی ہے.

نیپ ہو یا پیپلزپارٹی یا ن لیگ،مثالیں سامنے ہیں. بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا۔ بینظیر کو سر راہ قتل کردیا گیا۔ نوازشریف اور اسکے خاندان پر قید، جلاوطنی سمیت کونسا ایسا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا گیا لیکن ان لیڈران کی legacy ختم نہیں کی جاسکی. ضیاء نے پوری کوشش کی پیپلز پارٹی کو ختم کیا جائے ہر طرح کا ظلم ڈھایا۔مشرف نے ن لیگ کے بخئیے ادھیڑنے کیلئے ہر جائز ناجائز کام کیا اور ابھی حال ہی میں پچھلے چند برسوں میں ان دونوں پارٹیوں بالخصوص ن لیگ پر 'باجوہ عمران ہائیبرڈ رجیم' نے کیا کیا ناانصافی اور ظلم تھا جو نہیں ڈھایا لیکن یہ دونوں سیاسی جماعتیں چونکہ عوامی جماعتیں تھیں اور ہیں اور ان کے لیڈران خود ظلم سہتے رہے لیکن ان پارٹیوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔

پچھلے کچھ برسوں میں ان پارٹیوں کے سربراہان سمیت تقریباً ساری لیڈرشپ کو زندانوں میں ڈالا گیا۔جیلوں کی کال کوٹھڑیوں بلکہ پھانسی پانے والے مجرمان کی چکیوں تک میں رکھا گیا. انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی رہائی کی صرف ایک صورت ممکن نظر آتی تھی کہ وہ اپنی پارٹیاں چھوڑ دیں لیکن شاباش ہے ان تمام لوگوں پر جو ہر طرح کا ظلم اور ناانصافی برداشت کرگئے لیکن اپنی جماعتوں سے دغا نہیں کیا۔

اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر سیاسی جماعتیں اور لوگ ایسے ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کے ساتھ ایسا کیا انوکھا ہوا کہ اسکے لیڈران وغیرہ دھڑا دھڑ اپنی جماعت کو چھوڑ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں حالانکہ ان پر تو ویسا ریاستی جبر بھی ابھی تک نہیں ہوا جیسا  پیپلزپارٹی اور ن لیگ پر ہوا تھا. دو دن چار دن یا دو دو ہفتے کی جیلیں یہ لوگ برداشت نہیں کرپائے آخر ایسا کیا ہوا. تو جنابِ من اس سوال میں سب سے بڑی غلطی تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت سمجھنا ہے. یہ جماعت اصل میں کچھ ابن الوقت، لالچی، فسادی لوگوں کو ہانک کر بنائی گئی اور اس فسادی ریوڑ کو ایک نرگسیت کے مارے فسطائیت زدہ فارن فنڈڈ جھوٹے فسادی شخص کے حوالے کیا گیا اور پاکستان کی بربادی کا مکمل بندوبست کیا گیا. عمران خان وہ عفریت ہے جسے جرنیلوں نے بنایا اور پروان چڑھایا۔ اس کی ہر جائز ناجائز ذرائع سے امداد کی گئی اور اسے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا اور پھر وہی ہوا جسکا ڈر تھا یعنی پاکستان کی تباہی. عمران نامی عفریت چونکہ فطری طور پر نرگسیت کی ماری مخلوق ہے تو اسے لگا کہ وہ جو چاہے کرے اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔

اپنے سیاسی مخالفین پر اپنے سارے فاشسٹ ہتھکنڈے آزما لینے کے بعد وہ اپنے تخلیق کاروں پر حملہ آور ہوگیا اور یہ اس کی سب بڑی غلطی تھی جس کی اسے نہ رعایت ملی اور نہ کوئی معافی ملے گی. تخلیق کاروں تک جب اس عفریت کی لگائی آگ پہنچی تو انہوں نے اپنے اس پراجیکٹ کو dismantle کرنے کی ٹھان لی اور جس طرح یہ جماعت بنائی گئی تھی اب اسی طرح اسے ختم کیا جارہا ہے. تخلیق کاروں نے جو ریوڑ اس فاشسٹ کے حوالے کیا تھا اس ریوڑ کے تمام جانوروں کو اب اس سے واپس لیکر سائڈ میں کیا جارہا ہے اور پورا پراجیکٹ لپیٹا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی اٹھان اور اسکی طاقت چونکہ سوشل میڈیا کی مرہونِ منت تھی اور عوام میں دیگر جماعتوں کے برعکس مضبوط جڑیں نہیں ہیں تو اب اس کے ریوڑ کے تمام جانور جنہیں سیاستدان کہنا سیاست کی توہین ہے وہ مالکوں کے ڈنڈے کے ڈر سے جماعت چھوڑ رہے ہیں۔

اس فارن فنڈڈ، انتشاری اور فسادی جماعت کا اب کوئی مستقبل نہیں یہ اپنے فاشسٹ لیڈر سمیت تاریخ کے کوڑے دان میں گر رہی ہے۔ باقی اس نے اس عرصہ میں پاکستان کی معیشت، اقدار کو جس قدر تباہ کردیا ہے اور جن نوجوان ذہنوں کو خراب کردیا ہے اسکا مداوا ہونے میں کم از کم ایک دہائی درکار ہوگی۔

مصنف اکاؤنٹس گریجویٹ ہیں۔