آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم قانون کی روح سے متصادم ہے

آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم قانون کی روح سے متصادم ہے
فوجی آمروں نے آئین کے ساتھ جو سلوک کیا، اس پر تعجب نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اب شخصی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ اور جب شخصی حکومت قائم ہو گئی، تو آئین وہ چھکڑا بن جاتا ہے، جسے آمریت کے گدھے کے پیچھے باندھ دیا جاتا ہے۔

لیکن جب سیاست دان، خواہ یہ اصلی ہوں، یا جعلی، یا نام نہاد، یا کرائے کے، آئین کی درگت بناتے ہیں، تو تعجب ہی نہیں، ان کی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ اور بہت کچھ جو بھی کیا جا سکتا ہے، وہ ضرور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ فوجی آمر تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، حکومت پر قبضہ کرتا ہے۔ جبکہ سیاست دان آئینی طریقِ کار کے مطابق منعقدہ انتخابات میں لوگوں کی طرف سے مینڈیٹ لے کر حکومت بناتے ہیں۔ یعنی یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں، اسی میں چھید کرتے ہیں۔

گو کہ تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت کا مینڈیٹ شفاف اور منصفانہ انتخابات پر مبنی نہیں، اور اسے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مینڈیٹ دلوایا گیا، لیکن جہاں تک دوسری سیاسی جماعتوں، بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں، کیونکہ انھوں نے ایک ایسی حکومت کو قبول کیا ہوا ہے، جو ’’غیرآئینی‘‘ ہے۔

ان سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیشن بھی بنوایا، مگر وہ مردہ پڑا ہوا ہے۔ یعنی اس کمیشن اور اس کی تحقیقات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔

خیر، جب سے یہ حکومت بنی ہے، اس وقت سے جس قدر خلافِ آئین اقدامات ہوئے ہیں، ان سے قطع نظر، آرمی ایکٹ میں موجودہ ترمیم کا معاملہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ نہ صرف آئین و قانون اور آئین کی بالادستی، بلکہ پاکستان کی ریاست اور سیاست کے لیے بھی یہ ترمیم نہایت خطرناک اور دور رس مضمرات کی حامل ہو سکتی ہے۔

آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کا مسودہ، قومی اسیمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ اس کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ اس کے دو پیرے، جو اس ترمیم کے جوہر کو بیان کرتے ہیں، ان کا آزاد ترجمہ ذیل میں دیا جاتا ہے:

’’8 بی۔ چیف آف دا آرمی سٹاف کی دوبارہ تقرری اور توسیع: (1) اس ایکٹ میں یا کسی اور دوسرے قانون میں، جو فی الوقت نافذالعمل ہے، جو کچھ بھی موجود ہے، اس کے باوصف صدر، وزیرِاعظم کے مشورے پر، وقتاً فوقتاً، چیف آف دا آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں اضافی تین (3) برس کے لیے، دوبارہ تقرری کر سکتا ہے، یا چیف آف دا آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں تین (3) برس تک کی توسیع کر سکتا ہے، ایسی شرائط پر، جن کا تعین صدر وزیرِاعظم کے مشورے سے قومی سلامتی کے مفاد میں یا غیرمعمولی حالات میں کر سکتا ہے۔

’’اس ایکٹ میں یا کسی اور دوسرے قانون میں، یا کسی عدالت کے حکم یا فیصلے میں، جو کچھ بھی موجود ہو، اس کے باوصف، چیف آف دا آرمی سٹاف کی تقرری، دوبارہ تقرری، یا توسیع، یا اس ضمن میں تقرری کی اہل اتھاریٹی کا اپنی صوابدید کا استعمال، ان پر کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر، خواہ یہ کچھ بھی ہو، سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔‘‘

مزید برآں، مجوزہ ترمیم میں یہی چیز چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے بارے میں بھی تجویز کی گئی ہے۔ اور ان کی عمر کے ضمن میں، دوبارہ تقرری اور توسیع کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 برس مقرر کی گئی ہے۔

ان دونوں پیروں پر نظر ڈالنے سے قانون کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے پر یہ چیز عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ مجوزہ ترمیم قانون کے بنیادی مفہوم کے منافی ہے۔ یہ نہ صرف قانون کے بنیادی مفہوم کے منافی ہے، بلکہ 1973 کے آئین کی روح سے بھی متصادم ہے۔ کیونکہ آئین کسی بھی شخص کو خواہ وہ وزیرِاعظم ہو یا صدر، لامحدود اختیار عطا نہیں کرتا۔ بلکہ انھیں مختلف طرح کی مشاورت، وغیرہ، کا پابند بناتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ 1973 کا آئین کسی بھی نوع کی قانون سازی کو عدلیہ کے جائزے سے ماورا قرار نہیں دیتا۔

قانون کا اولین تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں کسی بھی شخص کو لامحدود اختیار کا حامل نہ بنایا جائے۔ یہی چیز آئین کو بادشاہوں کے شخصی آئین سے جدا کرتی ہے۔ جبکہ اس مجوزہ ترمیم میں وزیرِاعظم کو چیف آف دا آرمی سٹاف اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی دوبارہ تقرری اور توسیع کے ضمن میں لامحدود اختیار دیا جا رہا ہے۔

قانون کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کو کوئی اختیار دیا جائے، تو اسے مختلف انداز میں جواب دہ اور پابند بنایا جائے، تاکہ وہ اس اختیار کا غلط استعمال نہ کر سکے۔ یہی سبب ہے کہ جیسا کہ چیف آف دا آرمی سٹاف کی تقرری کے ضمن میں وزیرِاعظم کے لیے کابینہ کے ساتھ موثر مشاورت، وغیرہ، ایک لازمی امر ہے۔

جبکہ یہ مجوزہ ترمیم نہ صرف ایک فرد، یعنی وزیرِاعظم کو لامحدود اختیار کا حامل بنا رہی ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسی مجوزہ ترمیم میں یہ بندوبست بھی کر رہی ہے کہ اس کے وزیرِاعظم کے لامحدود اختیار کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔

https://www.youtube.com/watch?v=6HkKJTj-C58

یہ کیسا گورکھ دھندہ ہے؟ یہ کون قانون دان اور آئین دان ہیں، جنھوں نے اس مجوزہ ترمیم کو تحریر کیا ہے؟ کیا انھیں آئین اور قانون کے تقاضوں کا کچھ بھی ادراک نہیں؟ یا وہ خوشنودی کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں؟

جیسا کہ پاکستان کے سیاست دان کسی اصول کے پابند نہیں۔ ان کے نزدیک آئین اور قانون بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ مسلم لیگ (ق) جینرل مشرف کو سو برس کے لیے صدر بنانا چاہتی تھی۔ اب تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، یہ سب مل اپنی کرنی کر گزریں، اور آرمی ایکٹ میں اس ترمیم کو قانون بنا دیں۔ وہ ایسا کر سکتی ہیں، اور کرنے جا رہی ہیں۔ مگر یہ بات عیاں رہے کہ جس دن یہ مجوزہ ترمیم قانون بنی اور جس دن اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا، عدالت اسے منسوخ کر دے گی، یا اس میں مناسب تبدیلی کا حکم دے گی تاکہ ایک شخص یعنی وزیرِاعظم کو دیے گئے لامحدود اور ناقابلِ چیلنج اختیار کو ختم کیا جائے۔