رویت ہلال: ادارے فواد چودھری کی پشت پر تھے۔ کیا ریاستی بیانیہ بدل رہا ہے؟

رویت ہلال: ادارے فواد چودھری کی پشت پر تھے۔ کیا ریاستی بیانیہ بدل رہا ہے؟
اس عید پر سب سے بڑا کمال تو اپنے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کر دیا۔ اور وہ کمال تھا رویت ہلال کمیٹی کے مظبوط قلعے میں شگاف ڈالنا جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تھا تب بھی فواد چودھری نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رویت ہلال کمیٹی سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ فواد چودھری کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان ہے۔ وہ ایک دبنگ انسان ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس کے دور میں پورے ملک میں رمضان المبارک اور عیدالفطر ایک ہی دن میں ہوئی۔

جدید عہد میں قومی رویت ہلال کمیٹی کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان ایک ضدی، انا پرست اور جدید علم سے بے بہرہ شخص ہیں۔ جس طرح رات دس بجے کے بعد انہوں نے بے بسی کے عالم میں عیدالفطر کے چاند کا اعلان کیا، شکست کی پرچھائیاں ان کے چہرے پر عیاں تھیں۔ انہوں نے ملا کے روایتی مذہبی ہتیھار کا استمال کیا اور کہا کہ فواد چودھری یہ بتائیں کہ اب تک کتنی نمازیں پڑھی ہیں جس سے صاف لگ رہا تھا وہ شکست خوردہ ہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کے پیحھے وزیراعظم عمران خان کی آشیرواد اور ریاستی اداروں کی ہلاشیری نہ ہوتی تو مفتی منیب الرحمان کبھی عید الفطر کے چاند کا اعلان نہ کرتے مگر جس بے بسی کے عالم میں انہوں نے پریس کانفرنس کی، اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اب ریاستی بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کیا ریاست اور حکومت اس نکتے پر یکسوئی کے ساتھ سوچ رہے ہیں کہ مولوی کو جو سیاہ اور سفید کا مالک بنا دیا گیا تھا وہ غلط تھا؟

اب اس عمل کو رویت ہلال کمیٹی سے آگے لے کر جانا ہے۔ ایک تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خوش آئند بات ہے۔ جدید سائنس کے اس عہد میں سب کچھ مولوی پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ قومی رویت ہلال کمیٹی کا قیام 1974 میں لایا گیا۔ اسی دوران وزیر اعظم بھٹو اٹیم بم بنانے کے منصوبے پر بھی کام شروع کر رہے تھے۔ ایک طرف جدید سائنس کے استعمال کی انتہا تھی، دوسری طرف عید کا چاند دیکھنے جیسا جدید ترین کام مولوی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ بہرحال بھٹو صاحب کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک وطن عزیز میں چاند دیکھنے کا عمل ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ پشاور کے مسجد قاسم خان کا مولوی اپنی ہانک لگاتا تو مفتی منیب الرحمان اپنی بانگ دیتے۔ پوری دنیا میں ہم لوگ ایک مذاق بن کر رہ گئے تھے۔ ایک ہی ملک میں دو عیدیں ہوتی تھیں۔ اچھا ہوا فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات و نشریات سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں لایا گیا۔

73 سالہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہے کہ چاند دیکھنے کے لئے شہادتوں کی نہیں، جدید سائنس کے آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ فواد چودھری ایک دبنگ اور سیکولر مزاج کے شحص ہیں۔ ان کے اس فیصلے کے پیحھے وزیراعظم عمران خان کی رضا مندی اور اداروں کا تعاون تھا مگر کوئی شخص خود دلیر نہ ہو تو ایسے فیصلے نہیں کر سکتا۔

مولوی کو اس ملک میں چیلنج کرنا مشکل کام ہے، تاہم ناممکن نہیں۔ لہٰذا سب سے زیادہ قابل تحسین فواد چوہدری، اس کے بعد وزیراعظم عمران خان اور ادارے ہیں۔ جس کے باعث مفتی منیب الرحمان جیسے ضدی شخص کو بھی اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی۔

اب اس معاملے کو اور طرح سے دیکھنا شروع کر دیں۔ کچھ عرصہ قبل مولوی خادم حسین رضوی کا بھی سوفٹ ویئر تبدیل کیا گیا تھا۔ وہ اور ایک اور مولوی جیل سے معافی نامے لکھ کر رہا ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ طاقتور سمجھنا شروع کر دیا تھا اور فوج جیسے قومی ادارے کے خلاف بیان بازی شروع کر دی تھی مگر صرف ایک بار ان کو اٹھا کر جیل یاترا کرائی گئی، ان کو اب پہلے سے کافی افاقہ ہو چکا ہے۔

ریاست کے آگے کوئی نہیں کھڑا ہو سکتا۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا ہے کہ مولوی کے حوالے سے ریاستی بیانیہ تبدیل ہونے کے اشارے مل رہے ہیں، اگر واقعی اس سارے عمل کو وسیع پیمانے پر کیا گیا تو وطن عزیز کی بہت خوش قسمتی ہوگی۔ ماضی میں افغان اور کشمیر جہاد کے نام پر جس مولوی کو مسلح کیا گیا تھا، اسے طاقت اور پسیہ دیا، اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب مولوی اس قدر طاقتور ہو گیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہا ہے۔

اب بھی وقت ہے، حکومت اور ریاست نے جس طرح اپنے آپ کو منوانا شروع کر دیا ہے، اس کو وسیع پیمانے پر استمال کیا جائے  اور ریاست کی رٹ ہر جگہ برقرار رکھی جائے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔