مشرق وسطیٰ کا کردوغلو کون؟ بشار الاسد یا طیب اردگان؟

مشرق وسطیٰ کا کردوغلو کون؟ بشار الاسد یا طیب اردگان؟
جنوری 2020 کی 28 تاریخ کوشام کے سرکاری خبر رساں ادارے “سیرئین عرب نیوز ایجنسی” نےدیر شرقی، دیر غربی اور ادلب کےکچھ جنوبی علاقوں کی تصاویر شائع کیں۔ ان تصاویر کے اوپر انگریزی میں جوسرخی لگائی گئی اس کا ترجمہ کچھ یوں تھا!
"تلمنس ، دیر شرقی اور دیار غربی ، ادلیب کے جنوبی دیہی علاقوں میں دہشتگردوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا"

سال 2006 میں ایک زائر کی بنائی ہوئی تصویر
ان میں سے ایک تصویرخلافت بنو امیہ کے معروف خلیفہ خضرت عمر بن عبد العزیز کے مزار کی بھی تھی۔ شام کی خانہ جنگی سے پہلے زائرین باقاعدگی سے وہاں حاضری دیا کرتے تھے۔ انہی میں سے ایک زائر کی کھینچی ہوئی تصویر سےہم نے جب جلے ہوئے مزار کی تصویر کو ملایا تویہ تصدیق ہو گئی کہ توڑ پھوڑ کی تصویر اصلی ہے۔ تصویر میں واضح طور پریہ دیکھا جا سکتا تھاکہ نہ صرف مزار میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی بلکہ وہاں موجودقبروں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں جلایا بھی گیا۔ یقیناً ایک بڑی شخصیت کے مزار پہ یہ سب ہونا ایک بڑی خبر تھی۔ مگر اس وقت صرف ترکی کے ہی ایک دو مقامی میڈیا گروپس نے اس پر تبصرہ کیا ۔ اور اسے بشار حکومت کے جرائم میں اضافہ گردانا۔

ان تصاویر کے بعد تقریباًًچار مہینوں تک معنی خیز قسم کی خاموشی رہی۔ ظاہر سے بات ہے اپنے ہی پالے ہوئے سپوتوں کا کارنامہ تھا اس وقت کیسے شامی حکومت پہ الزام دھرتے؟ بالآخر مئی 2020 کے آخری دنوں میں سیرین عرب نیوز کی وہی تصویر ایک ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو گئی۔ اب کی بار ان کو پھیلانے والے ترک میڈیا گروپس نے واضح طور پر اس واقعے کا مکمل ذمہ دار شام کے صدر بشار الاسد، ان کی حمایت کرنے والےروس اور ایرانی عسکریت پسندوں کو قرار دیا گیا۔ ویسے ہمیں یہاں ترک مرد مجاہد طیب اردگان کی میڈیا کے حوالے سے حکمت عملی کو داد دینی چاہیئے۔ کیونکہ ترک صدر نے ایسے کئی میڈیا ہاؤس پال رکھے ہیں جن کا کام اردگان کو موجودہ زمانے کا صلاح الدین ایوبی ثابت کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا ملک نہ صرف نیٹو کا فعال رکن ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ مکمل تجارتی و سفارتی تعلقات کو استوار رکھنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ خیر اس خبر کی رپورٹنگ کی بات ہو رہی تھی ۔ تو ان ترک ویب سائٹس کے علاوہ بڑے میڈیا گروپس میں صرف الجزیرہ اور عرب نیوز نے ہی ایک آدھ بار سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کریہ رپورٹ کرنا مناسب سمجھا۔کہ بشار کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے نہ صرف مزار کو جلایا بلکہ قبر سے ان کے جسم کو نکال کر ان کی بے حرمتی بھی کی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ الجزیرہ اور عرب نیوز جن کے لیے پراپیگنڈہ مشین کا کام کرتے ہیں انہوں نے کتنے مقدس مقامات کو تباہ کیا اور کتنوں کی توہین کی۔ اور اس پر انہوں نے کتنی خبریں جاری کیں۔

اب ایک لمبے عرصے کے بعد اس واقعے کی رپورٹنگ کے محرکات پہ بات کر لیتے ہیں۔جناب سیدھی صاف سی وجہ ہے کہ جنوری ، فروری میں شامی افواج نے ادلب اور اس کے ارد گرد کےعلاقوں میں دہشتگردوں کا کافی حد تک صفایا کردیاتھا۔ 28 فروری کو جب شامی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف ایک آپریشن کیا تو ترک فوجی جو وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف نام نہاد آپریشن کیلئے آئے تھےوہ بھی دہشتگردوں کے ساتھ ہی مارے گئے ۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اُس وقت تو عرب اور ترک میڈیا یہ پراپیگنڈہ کرنے سے رہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا مزار شامی حکومت نے شہید کیا کیونکہ تب تو خود ان کے اپنے بندے وہاں قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ ویسے عیدالفطر کے بعد، شوال کے پہلے ہفتے میں سعودیہ نواز میڈیا کی جانب سے پراپیگنڈے کے پیچھے ایک اور بھی وجہ تھی۔ اس پراپیگنڈہ برگیڈ نے دراصل ان تصاویر کے ذریعے سے عوام میں ایک نئی بحث چھیڑنا چاہی ۔ وہ یہ کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی 8 شوال کو انہدام جنت البقیع کا دن منایا جانا تھا۔ سو اس بارانہوں نے شامی حکومت پر الزامات لگا کر لعن طعن کا رُخ موڑنے کی کوشش کی۔

لیکن تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ مزار بنانے والے کم از کم گرا نہیں سکتے۔ اس قبیح عمل کے پیچھے بھی یقینا وہی طبقہ ہے جس کی فطرت میں یہ شامل ہے ۔ آپ پچھلے سو برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ دیکھیے کہ کیسے آل سعود کے تسلط سے شروع ہونے والی شدت پسندی کی فکری آماجگاہ نے نہ صرف عالمی سامراج کو دنیا بھر میں ظلم و جبر کا جواز فراہم کیا ۔ بلکہ مسلمانوں میں تفرقہ بازی کو ہوابھی دی اور انہیں ان کی تاریخ سے بے بہرہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ آل سعود نےجنت البقیع کو شہید کیا، القاعدہ و طالبان نے افغانستان و پاکستان میں کئی تاریخی مقامات اور مزارات پہ خودکش دھماکے کیے۔اب پچھلی دہائی میں داعش کے ہاتھوں انبیاء کرام،اہل بیت، صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کے مزارات کی بے حرمتی کی گئی ۔ ان سب واقعات کی کڑیاں ملاتے جائیں تو ان کی فکری جائے پیدائش کا سرا آپ کو ادھر ہی جاتا دکھائی دے گا ۔جنہوں نےدو برس پہلے “دی اٹلانٹک” کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ ہم نے سامراج کے اشاروں پہ ایک خاص مکتبہ فکر کو دنیا بھر میں ترویج دی۔

آخر میں ذرا ان الزامات کو دیکھتے ہیں جو اکثر شامی صدر پہ ان کے فرقے کی وجہ سے لگتے ہیں۔ موجودہ سوشل میڈیائی تحریک میں ہر دوسرے مجاہد نے برملا یہ لکھا کہ بشار الاسد چونکہ شیعہ ہے اس لیےوہ شام میں ایرانی حمایت سے اہل سنت کا قتل عام کر رہا ہے۔ اب ایرانی حمایت کی وجہ تو شیعہ مسلک بتائی جاتی ہے مگر سعودیہ اورترک نواز دانشمند یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ملحد روس کا صدر پیوٹن تو شامی حکومت کے ساتھ کھڑا ہے ۔ البتہ بشار حکومت کی مخالفت صرف الباکستانی مجاہدین ہی نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل بھی کرتے ہیں۔

ذاتیات سے ہٹ کر بھی اگر ہم صدر بشار کے فرقے کی بات کریں تو علوی ویسے تو فقہ جعفریہ کا حصہ ہیں تاہم عقائد و عبادات کے اعتبار سے یہ اہل سنت کے زیادہ قریب ہیں۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے یمن کے حوثی باغی زیدی شیعہ ہیں تاہم فقہ کے اعتبار سے وہ اہل سنت کے زیادہ قریب ہیں۔ اور بشاربالفرض اگر شیعہ ہے بھی تو اس کے پاس تو اکیسویں صدی کے آغاز سے شام کی حکومت ہے۔ اس نےعرب اسپرنگ سے پہلے کبھی اموی خاندان کے خلفاء کی قبریں کیوں نہیں کھودیں؟۔ جب کہ بنو امیہ کے کئی نامور سربراہان ریاست کی قبور دمشق میں موجود ہیں۔ تو جناب بات کچھ یوں ہے کہ عالمی منظر نامہ جانے بغیر اگر آپ ارتغرل دیکھ کر اردگان کو مجاہد سمجھ بیٹھیں گے۔ تو یقیناً پھر آپ کو نیٹو اتحاد کی دہشتگردی کے خلاف لڑنے والابشار کردوغلو ہی دکھائی دے گا۔ اور مشرق وسطی کی امریکی پراکسی وار کا نمائندہ خصوصی “اردگان” مسلمانوں کا خلیفہ بن بیٹھے گا۔