احمدیوں کو قربانی کرنے کی اجازت نہ دی جائے: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پنجاب حکومت کو درخواست

احمدیوں کو قربانی کرنے کی اجازت نہ دی جائے: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پنجاب حکومت کو درخواست
لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے حکومتِ پنجاب سے درخواست کی ہے کہ وہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کرے کہ ایسے تمام احمدیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جو کہ عیدِ قرباں پر قربانی کرتے ہیں۔ ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا آئین کے سیکشن 298-B کی خلاف ورزی ہے۔

27 جولائی 2020 کو پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کی جانب سے گذارش کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 260(3)(b) کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں جب کہ قربانی سنتِ ابراہیمیؑ اور سنتِ محمدیؐ ہے جو کہ خاتم النبیینؐ ہیں لہٰذا قربانی کی رسم انہی شعائرِ اسلامی میں آتی ہے جن کو اپنانے کا آئین کے تحت احمدیوں کو حق نہیں ہے کیونکہ مسلمان گذشتہ 1400 سال سے یہ تہوار مناتے آ رہے ہیں اور احمدیوں کو آئین کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی شعائرِ اسلامی اپنا نہیں سکتے۔

اس کے بعد وزیرِ داخلہ کو یاد دہائی کروائی گئی ہے کہ وہ آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہوئے انہیں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ صوبہ پنجاب میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے، جب کہ 1973 کے آئین کی شق 189 کے مطابق آپ سپریم کورٹ کے احکامات کے پابند ہیں شق 190 کے مطابق پاکستان کے تمام انتظامی اور عدالتی حکام سپریم کورٹ کے احکامات کی بجا آوری کروانے میں اس کی مدد کرے گا۔

اس خط میں استدعا کی گئی ہے کہ ہر سال عید الاضحیٰ کہ موقع پر بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ایف آئی آرز بھی درج کی جاتی ہیں کہ احمدیوں کی جانب سے سرِ عام آئین پاکستان کی شقوں 298 بی اور 298 سی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تعزیراتِ پاکستان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کے بنائے اس قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے جس کے مطابق ایسے تمام گروہوں کو آئین ہاتھ میں لینے سے روکنے کے لئے پوری طاقت کا استعمال کرنا لازمی ہے۔

لہٰذا آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ملک بھر میں تمام پولیس افسران کو حکم جاری کریں کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جو احمدیوں کی جانب سے قربانی جیسے شعائرِ اسلام کو اپنانے سے روکیں اور اس میں واضح طور پر تنبیہ کی جائے کہ اس حکم کی عملداری یقینی بنانے میں کسی بھی قسم کی لغزش کی صورت میں متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پاکستان کے 1973 کے آئین میں ابتداً ایسی کوئی شقیں شامل نہیں تھیں جن کے مطابق کسی بھی مذہبی سوچ کے حامل شخص کو غیر مسلم قرار دیا جا سکے۔ اس حوالے سے 1953 میں ہونے والے لاہور فسادات کے بعد جسٹس منیر کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے جب ملک کے کئی جید علما کو بلا کر ان سے اسلام کی تعریف پوچھی تو ہر ایک کا جواب مختلف تھا جب کہ ان تمام مولوی حضرات کے مطابق مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد غیر مسلم ہیں۔

لیکن پھر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا اور ایک طویل مباحثے کے بعد احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا کہ ایک ملک کے آئین میں اسی ملک کے شہریوں کی تکفیر کی گئی ہو۔ اس کے بعد جنرل ضیا نے آ کر اس قانون کو مزید سخت بنا دیا جس کے مطابق شعائرِ اسلام پر احمدیوں کا عمل کرنا جرم ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں ہوئی ایک ترمیم دوسری ترمیم ہے جس سے متعلق بات بھی ان کو ناگوار گزرتی ہے۔ جس پر یہ ایسی سختی سے کاربند ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ عید الاضحیٰ کے روز کوئی احمدی گوشت تک نہ کھائے کیونکہ اگر اس روز اس نے گائے گرائی تو یہ قربانی کے زمرے میں آ جائے گا، جو کہ بقول وکلا صاحبان شعائرِ اسلام میں آ جائے گا اور اس لحاظ سے آئین کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ لیکن دوسری جانب اٹھارھویں ترمیم میں ترمیم کرنے کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔ اس کے خلاف تو ہر قسم کی بات کی جا سکتی ہے تو پھر دوسری آئینی ترمیم کیوں آئین کا بنیادی جز مان لی گئی ہے؟

سوال تو یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر احمدی قربانی نہیں کر سکتے تو پھر کیا کل کو آپ کہیں گے کہ وہ گائے ذبح بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ذبح تو مسلمان کر کے کھاتے ہیں؟

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں خود کو ایک اچھا انسان ثابت کرنے کے لئے احمدیوں کو نشانہ بنانا ایک عام رواج بن چکا ہے۔ جو لوگ لاہور کے حفیظ سنٹر میں بیٹھ کر 250 روپے کی چیز 1500 میں بیچنے کی کوششوں میں لگے ہیں، وہ بھی باہر لکھ کر لگاتے ہیں کہ یہاں احمدی کا داخلہ منع ہے۔ وہ بھی قربانی کریں گے۔ ایک مولانا صاحب شراب پی کر سڑک پر بیٹھے تھے کہ کسی نے ویڈیو بنا لی۔ لیکن جب ٹوئٹر پر لوگوں نے سوال اٹھایا تو ہر سوال کرنے والے پر احمدی ہونے کا الزام لگانے لگے۔ سب چپ ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ بھی قربانی کریں گے۔ وکلا گردی اب باقاعدہ اس ملک کی سیاسی لغت کا حصہ ہے۔ فیسیں بڑھوانے کے لئے  جان بوجھ کر مقدمہ لمبا کرنے اور  اگلی پیشیاں ڈلوانے والے وکلا  فیس زیادہ ہو بھی اس لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کا حصہ ہیں جس کے نمائندوں نے خود کو آئندہ ہونے والے وکلا بار کے انتخابات کے لئے خود کو نیک اور سچا مسلمان بنا کر پیش کرنے کی خاطر لوگوں کے مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی قربانی کریں گے۔ کیا ان کے نزدیک شعائرِ اسلام پر عمل کرنا محض یہی ہے کہ احمدیوں کو ان شعائر پر عمل کرنے سے کسی طرح روکا جائے؟