اجر رسالت و اہل بیت نبی

اجر رسالت و اہل بیت نبی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

علم عمرانیات یعنی سوشیولوجی اپنی اساس چند زاویوں پر عائد کرتی ہے جن میں سے ایک اور بے حد اہم فنکشنل پیراڈائیم ہے جو کہ اس بات پر منحصر ہے کہ دنیا کی ہر شے ایک دوسرے سے تعلق میں چلتی ہے اور کسی بھی چیز کا اثر ایک دوسرے کے تعلق کو لازماً اثر انداز کرتا ہے۔ ایک صورت میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ زاویہ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر دلالت کرتا نظر آتا ہے۔ اس پیراڈائیم میں ہر اسٹیٹس کے ساتھ ایک رول کو منسلک کیا جاتا ہے۔ گویا جو بھی لقب یا عہدہ ہو اس کے ساتھ اس کی اپنی نوعیت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ جن کو پورا کرنا لازم ہو، نہیں تو یا تعلق باقی نہیں رہتا یا پھر وہ ادارہ۔

سورۃ الیونس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: لوگوں کو چاہئے کہ خدا کے فضل اور رحمت پر رشک کریں، وہ بہتر ہے اس سب سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

یہ خاص فضل خدا ہے کہ ہم میں سے اکثر نے سماعت پاتے ہی آذان سنی اور خدا شناسی کے سبق ماں کی کوکھ سے حاصل کئے۔ گویا بغیر کسی چوٹی عبور کئے دنیا و مافیہا کا سب سے افضل رتبہ یعنی نسبت مصطفی حاصل کر لی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جیسے ہر لقب کے ساتھ، ویسے ہی امتی محمد ﷺ کے اسٹیٹس کے ساتھ بھی رولز جڑے ھوے ہیں۔ کتاب روشن، قرآن کریم نے اس موضوع پر بھی لب کشائی کی اور اسی پہلو سے کتاب ہدایت نے کئی ہدایات دیں۔

ان ہدایات میں سے ایک بنیادی ہدایت کو کچھ یوں بیان کیا: اے نبی کہہ دیجئے میں تم میں سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے مودت کرو۔

نوٹ کیجئے کہ گزشتہ تمام انبیاء کا احوال بیان کرتے ہوئے قرآن ان الفاظوں کا استعمال کرتا ہے: کہ میں تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا، میرا اجر تو رب العالمین کے پاس ہے۔

مگر نبی خاتم کیلئے الفاظ مختلف ہیں۔ مزید نوٹ کیجئے کہ یہ مطالبہ حضور اکرم ﷺ کا نہیں بلکہ خدائے واحد کا ہے کہ اس کے حبیب کے قرابت داروں سے وہ مودت کریں کہ جو اس خدا کی رضا کے حصول کے خواہشمند ہوں۔ دوئم یہ کہ یہاں خدا اپنے حبیب کو حکم دے رہا ہے کہ اے غنی و من فی السموات الارض کے محبوب ان سے کہہ دیجئے کہ ظلمات الی النور کا سفر جو تم ان کو طے کروا رہے ہو تو اس کے بدلے میں ان سے کسی اجرت کا مطالبہ تو نہیں کرتے مگر اے یٰس و طحہٰ ان سے یہ مطالبہ کرو کہ یہ تمہارے قرابت داروں سے مودت کریں۔ اور اس طرح یہ حکم مجھ اور آپ پر خدا.صادر کرتا ہے کہ جس کے وسیلہ سے مجھ سے شناس ہوئے ہو اس کی قرابت داروں سے مودت کرو۔ مودت گویا الفت و محبت، نصرت و ہمیت اور ان جذبات سے منسلک تمام احساسات۔

قرابت دار ایک امبریلا ٹرم ہے کہ جس کے دعویدار کئی ہوسکتے ہیں چنانچہ خدا نے از خود واضح فرمایا کہ یہاں قرابت دار سے کون مراد ہیں۔ پس قرآن مجید نے خود اس دائرے کار کو مختصر کیا اور فرمایا: بے شک اللہ ارادہ فرماتا ہے کہ ہر ناپاکی کو اہل بیت سے دور کر دے اور انہیں پاک کر دے پاک کردینا جیسا۔

یہاں پر دوبارہ غور کیجئے کہ یہ اللہ کا ارادہ اور اللہ کی خواہش ہے کہ ہر ناپاکی گھرانہ مصطفی سے دور کھی جائے اور پاک کیا جائے جیسے کہ پاک کر دینے کا حق ہے۔ لفظ تطھیرا سوپرلیٹوو ڈگری ہے کہ جس کے آگے پاکی کی کوئی اور منزلت باقی نہیں رہتی۔ قرآن کی یہ آیت از خود دلیل ہے کہ جب اہل بیت پاکیزگی عقیدہ و ایمان کا ثبوت ہے اور یہ کہ کوئی ناپاک چاہتے ہوئے بھی اہل بیت نبوت کی قربت اختیار کر نہیں سکتا۔

یہ سیرت رسالت کا وہ باب ہے کہ جہاں خدائے مطہر نے جنت نعیم سے ایک چادر نازل فرمائی کہ جس میں رسول پاک نے خود کو بشمول سیدہ نسا العالمین، حسنین کریمین اور مولیٰ مشکل کشا کے ساتھ سمو لیا اور اپنے اہل بیت کی نشاندہی اور پاکیزگی بحفاظت فرما دی۔

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیت تطھیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت

اب ملاحظہ کریں کہ کس طرح خدا اپنے خصوصاً با الخصوص کا دائرہ سمیٹتا جا رہا ہے۔ بات شروع ہوئی قرابت داروں سے پھر گھر والوں تک محدود کر دیا مگر یہاں بھی بس نا ہوئی۔ جیسے کہ سوشئیولوجی میں گھریلو نظام کی اقسام بیان کی گئی ہیں کہ کنبہ اور قبیلہ سے بات شروع ہوتی ہے اور نیوکلیر فیملی پر آکر اختتام پذیر ہوتی ہے بلکل اسی طرح خدا نے یہ دائرہ سمیٹا کہ اس کے محبوب ترین، شیش محل کی مانند نمایاں ہوں اور اب ان خصوصاً باالخصوص کی پہچان الاعلان ہو۔

پس ہمیں قرآن میں وہ آیت مباہلہ ملتی ہے کہ جس میں ایک بار پھر خدا اپنے محبوب کو کہتا ہے: اے نبی خاتم ندا لگاؤ ان کو کہ جو خدا پر جھوٹ بانتے ہیں کہ وہ لے آئے اپنی عورتیں اور بچے اور خود آ جائیں اور اے پیمبر تم لے جاؤ اپنی عورتیں اپنے بچے اور بنفس نفیس اے حبیب تم ان سے مباہلے کیلئے جاؤ۔

اس ہزاروں کے مجمع میں آنحضور ﷺ اس آیت کے ذیل میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حسنین کریمین اور اپنے نفس کے طور پر خود کو اور اس ایک ہی کپیسٹی میں مولائے کائنات کو لے جاتے ہیں اور خدا اپنی حجت تمام فرماتا ہے کہ جو بات پہلے ایک چادر میں پوشیدہ تھی اب اسے کائنات جان لے کہ

بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات
فاطمہ حسین و حسن مصطفی علی

زندگی ایک سفر ہے اور اسی نسبت سے آقائے کریم علیہ صلوٰۃ وسلام نے فرمایا کہ میرے اہل بیت سفینائے نوح کی مانند ہیں پس کہ جو اس میں سوار ہوا سو کامیاب ہوا اور جو ان کی قربت سے محروم ہوا گویا نیست ونابود ہوا۔ اور دوسری جانب فرمایا کہ میرے صحابہ ان راستہ دکھانے والے روشن ستاروں کی مانند ہیں، ان کی پیروی کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ واضح ہوا کہ زندگی کا سفر کس کشتی میں اور کس روشنی کے ذیل ہو کر گزارنی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تممہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جن کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ ایک کلام الہٰی اور اترت اہل بیت گویا سوشئیولوجی کے مطابق نارمز، بیلیوز اور ورچییوز کو آقائے دو جہاں نے خود نمایاں کر دئیے کہ میرے اہل بیت وہ منزل ہیں کہ جن پر نگاہ جمائے رکھنا، صراط مستقیم پر گامزن رہو گے۔ غور طلب اس فرمان میں لفظ اترت ہیے کہ جس کے معنی تعظیم و تکریم کے ہیں جس کے بعد عزت و اکرام کا کوئی درجہ باقی نہ رہے، انسیت و محبت ایسی کہ جان حاضر کر دی جائے۔

محرم الحرام، اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے جو کہ حضور اکرم ﷺ کی مکہ سے مدینہ حجرت کی علامت ہے اور تاریخ اسلامی کے ایک نئے اور نہایت اؤہم باب کے آغاز کی یاد دلاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی حجرت کے ساٹھ برس بعد ان کا جگر گوشہ پھر ان ہی ایام میں ایک اور حجرت کرتا ہے۔ نا صرف وقت اور مہینہ وہی بلکہ نانا اور نواسے کی حجرت کا عین مقصد بھی جوں کا توں مشترک تھا۔ دونوں نے دین اسلام سے منسلک ہر قسم کے فتنہ کو مات دینے اور کلمت اللہ ہی العلیا کی خاطر اپنے ہر دل عزیز آبائی شہروں کو خیر باد کہا۔ ماہ محرم سے قبل ماہ ذو الحجہ میں عالم اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتا ہے۔ قرآن میں حضرت اسماعیل کے وہ سنہرے الفاظ ملتے ہیں کہ بابا کر ڈالیے جو حکم ہوا ہے بے شک آپ مجھے صابرین میں سے پائینگے۔ رسول اکرم ﷺ نے حسنین کے بچپن میں ہی اپنے دونوں پھولوں کے حوالے سے پیشنگوئی فرما دی تھی کہ ایک کو زہر دیا جائے گا جب کہ دوسرا فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ از روئے قرآن، امام حسن و حسین رسول ﷺ کے بیٹے ہیں۔ امام حسین کا سفر کربلا ان ہی الفاظوں کی عکاسی کرتا معلوم ہوتا ہے جو حضرت اسماعیل نے کہے تھے۔ اپنی جان و مال،خانواد ہ و رفقاء کی قربانی پر ایسی استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا کہ صبر و استقامت اپنی پہچان اب امام کی اس عظیم قربانی سے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اس ساری گفتگو کو ان الفاظوں میں سمیٹتے ہیں۔

غریب و سادہ رنگین ہے داستان ِ حرم
نہایت اس کی حسین ؓ، ابتداء ہے اسمعیل ؑ

حضرت نوح علیہ ا لسلام کی نو سو سالہ تبلیغ کے بعد سفینہ نوح میں سوار ہونے والے اور امام کے ساتھ سفر کربلا میں ساتھ چلنے والوں سے یہ مشترکہ سبق ملتا ہے کہ راہِ حق میں جان دینے والے اور اس کے طفیل فلاح پانے والے ہمیشہ قلیل ہوتے ہیں اور راہِ حق میں تکلیف و مشکلات اٹھاتے ہیں۔ پس یہی وہ اجر رسالت اور مطالبہ اترت ہے کہ ہر فرد از روئے قرآن، اس نور کی پیروی کرے جو رسول اکرم ﷺ پر کتاب کے ساتھ بل حق نازل ہوا۔ بے شک وہ نور یہ اہل بیت نبوت ہی ہیں اور وہ سیدھا راستہ جن پر خدا کا انعام ہوا، وہ ان ہی اصحاب اہل بیت نبوت کا راستہ ہیے جو ہر مومن کیلئے مطلوب و مقصود ہونا چاہئیے۔

کٹ جائے سر کرونگا مگر ذکر اہل بیت
زندگی ایک اور بھی ہے اس زندگی کے بعد