نور مقدم اور نسیم بی بی کیسز، وطن عزیز حیوانیت کا گڑھ بن چکا ہے

نور مقدم اور نسیم بی بی کیسز، وطن عزیز حیوانیت کا گڑھ بن چکا ہے
بعض واقعات اتنے کرخت اور زناٹے دار ہوتے ہیں جو  سماج کے سرخ ہوتے منہ پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں ۔ سماج صرف طبقاتی گروہ کا نام نہیں ہے اور نہ ہی افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ بلکہ سماج کی بنیادی اکائیاں وہ عوامل ہیں جن سے فرد اور افراد کے مابین ایک انسانی رشتہ قائم ہوتا ہے۔ وہ بنیادی اکائیاں محبت، اخلاق، رواداری، تحمل، برداشت اور  احترام ہیں جنکے تحت فرد فرد سے جڑا ہوا ہے۔ ویسے تو ہر معاشرہ کئی گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ جیسے ذات پات، ہندو مسلم، سکھ،عیسائی یہودی ، شیعہ سنی اور امیر غریب۔ لیکن دنیا کا کوئی بھی معاشرہ لے لیں یہ آپ کو  صنفی اعتبار سے  دو گروہوں پر مشتمل نظر آئے گا۔ "مرد اور عورت"۔ مرد اپنی عضلاتی بناوٹ، جارح پن کی وجہ سے خود کو عورت پر غالب سمجھتا ہے۔ باوجود اسکے کہ عورت میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت، کام کاج جیسے گھریلو امور کی ذمہ داری، دن بھر لگا تار کام کرنے کی صلاحیت مرد سے زیادہ ہے۔ لیکن مرد پھر بھی خود کو طاقتور گردانتا ہے۔ طاقتور ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ عورت کو پست شے سمجھے یا ایک جنسی گڑیا جو صرف اور صرف مرد کے تصرف میں رہنے والی کوئی بے مایہ چیز ہے۔

بسا اوقات مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے ساتھ وہ غیر انسانی رویہ روا رکھتا ہے  جسے سن یا دیکھ کر سماج کی کھوکھلی دیواروں لرز اٹھتی ہیں۔ لیکن یہ دیواریں اتنی ڈھیٹ ہیں کہ ایک لچک دکھا کر، لاشوں کو اپنے سینے میں دبائے اپنی جڑوں سے دوبارہ پیوست ہو جاتی ہیں۔ یوں ایک کے بعد دوسری  پھر تیسری لاش دباتے سمے یعنی ہر لاش پر ذرا سا ہلتی ہیں پھر ساکت ہو جاتی ہیں۔ گویا یہ ایک عمل ہے جسے ہونا ہے کچھ دیر اسکی بازگشت سننی ہے اور پھر دوسرے مسائل میں الجھ کر اس بربریت کو بھول جانا ہے۔

پاکستانی قوم الحمداللہ اس عمل میں اس قدر مشاق ہو گئی ہے کہ انسانیت سوز کوئی واقعہ اب اسے تادیر متاثر نہیں کر سکتا۔ اس لئے تو آج تک اس قوم نے ہر ظلم سہنے کے باوجود کسی بھی طاقتور شخص کے سامنے سر اونچا نہیں کیا مبادا کہ اسکی شان میں گستاخی ہو۔ تیزی سے بھول جانے کی اس روایت نے ہر گناہگار کو ایسے ایسے گناہ کرنے میں چھوٹ دے دی ہے کہ اب گناہ کرنے سے پہلے ظاہر جعفر جیسے لوگ کسی نور مقدم کو قتل کرنے سے پہلے کھلم کھلا اپنے دوستوں سے مشاورت کر رہے ہیں کہ اگر وہ کسی کا قتل کریں تو اسکی ممکنہ سزا کیا ہوگی؟ میں چونکہ امریکی شہری ہوں ہو سکتا ہے کہ میں اگر پکڑا جاؤں تو کم سے کم سزا ہو۔ اگر مجھے بچنا بھی ہو تو مجھے کیسے بچنا ہے۔ یہ ظاہر جعفر نہیں بول رہا تھا بلکہ وہ نشہ تھا جسے پیسے یا طاقت کا نشہ کہا جاتا ہے۔ اسکو پیسوں اور اپنے سٹیٹس پر اس قدر مان ہے کہ وہ جب چاہے قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کو اپنی مرضی سے چلا سکتا ہے۔ گویا امیر ہونا ایسا ہے جیسے شطرنج کی وہ گیم جسے خود کھیلنے والا جب چاہے اپنی مرضی سے بساط الٹ کر جیت سکتا ہے۔ اور مظلوم بس خالی آنکھوں میں مایوسی اور حسرت بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔

نور مقدم قتل ہونے والی وہ لڑکی تھی جس نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ خود کو قتل ہونے سے بچا سکے۔ باہر بھاگی یہاں تک کہ روشن دان سے بھی اس نے چھلانگ لگائی کہ شاید کوئی سبیل نکل آئے جو اسے اس اذیت سے نجات دلا سکے۔ لیکن ظاہر جعفر جیسا وحشی پھر اسے گھسیٹتا ہوا قتل گاہ کی طرف لے گیا۔ اسے ایسا کرتے کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہر دیکھتی آنکھ نابینا تھی۔ ظاہر جعفر کے ملازموں نے بھی اپنے مالک کے خلاف جانا گوارا نہ کیا۔ وہ دل سے یہ بات جانتے تھے کہ ہمارا مالک امیر شخص ہے اسے حق ہے کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اس دوران وہ بڑے نارمل انداز میں اپنے والد والدہ سے رابطے میں تھا اور ہر وہ بات بتا رہا تھا جو یہاں ہو رہی تھی۔ لیکن اسکا والد اس سے بھی بڑا مجرم کہ جب اسے پتہ تھا کہ کہ وہ لڑکی کو قتل کرنے لگا ہے تو اس نے پولیس کو اطلاع کیوں نہ دی؟۔ اگر وہ اطلاع دے دیتا تو نور مقدم شاید بچ جاتی۔ لیکن اس نے اپنے بیٹے کو درندہ ہونے سے روکنا اپنی مردانگی کے خلاف ایک حملہ سمجھا۔ ایک کے بعد کئی کالز ظاہر جعفر نے سنیں اور کیں۔ نور مقدم کے والد تک کی کال اس نے تحمل سے سنی اور انھیں ادراک تک نہ ہونے دیا کہ وہ اس کے پاس ہے۔ یوں بیدردی سے نور مقدم کو اسنے صرف اس بات پر گردن اتار کر  قتل کر دیا کہ وہ اسکو دھوکہ دے رہی  تھی۔ یہ تو بھلا ہو تھراپی ورکس کے نمائندوں کا جنھیں ڈاکٹر طاہر نے ظاہر جعفر کے والد کے کہنے پر اسکے گھر بھیجا۔ اور مجرم نے ایک نمائندے کو زخمی کیا اور باہر تک جب بات کچھ ضرورت سے زیادہ پہنچی تو ہمسائیوں میں کسی نے پانچ منٹ کی دوری پر بنے پولیس اسٹیشن اطلاع دی اور یوں اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کرنے کے ساتھ نور کی سر کٹی لاش بھی برآمد کر لی گئی۔

مجرم ظاہر جعفر ایسے گھر کا فرزند ہے قانون جس کے گھر کی باندی ہے۔ بڑے بڑے وکیلوں کی ایک فوج ظفر موج نے اسے سمجھایا کہ بیان یہ نہ دو کہ نور مقدم اسے دھوکہ دے رہی تھی اس لئے میں نے اسے قتل کیا۔ بلکہ تم یوں کہو کہ وہ خود کشی کرنے لگی تھی۔ میں نے اسے اس گناہ عظیم سے بچانے کیلئے ایک دوست کے ناطے مدد کی اور اسکا گناہ اپنے سر لے لیا اور اسکی گردن اتار دی۔ گردن اتارنے سے پہلے وہ مر چکی تھی۔ میں نے اسکی موت کو حرام موت ہونے سے بچا لیا۔ پولیس نے ظاہر جعفر کے والد اور والدہ کا دو روزہ ریمانڈ لیا۔ تفتیش نامکمل ہونے کی صورت میں وہ اس ریمانڈ میں اضافہ چاہتی تھی لیکن معزز عدالت نے صاف انکار کر دیا۔ معزز عدالت یہاں تک نہیں رکی بلکہ اس نے اس کیس کو میڈیا تک لے جانے سے بھی پولیس کو روک دیا کہ جب تک عدالت نہ کہے میڈیا تک اس کا ٹرائل نہیں جانا چاہئے۔ ظاہر جعفر جیسا امیر زادہ بڑے اطمینان سے جیل میں مہیا کی گئی چار پائی پر دراز، منرل واٹر پیتے ریستورانوں کا کھانا کھا کر اسے فلمی سین سمجھتے ہوئے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اگر یہ کوئی غریب ملزم ہوتا، مجرم تو دور کیا پولیس اسے اس قابل رہنے دیتی کہ یہ تھانے کو اپنے باپ کا گھر سمجھتا۔ اب تک پولیس نے اسے بیٹھنے لائق بھی نہ چھوڑا ہوتا۔

سماج کے گدلے پانی میں ابھی تک پھینکے ہوئے کنکر سے بد بودار  لہریں دائرہ در دائرہ گھوم رہی تھیں کہ اچانک ایک اور واقعہ رونما ہو گیا۔ یہ واقعہ نسیم بی بی کا تھا۔ جسے جنسی نشانہ بنانے کے بعد بڑے بے رحمانہ انداز میں اسکے ڈیڑھ سالہ بچے سمیت قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے ڈیڑھ سالہ بچے کو گردن پر خنجر کے وار سے ہلاک کیا۔ جب کہ خنجر کے کئی وار نسیم بی بی پر بھی مجرم واجد نے کیے۔ واجد روپوش تھا جسے کچھ روز قبل گرفتار کیا گیا۔ یہ بے حسی یہ درندگی انسان کو کس ڈگر لے کے جارہی ہے؟

عورت کے ساتھ ساتھ حیوان بھی میرے وطن عزیز میں جنسی بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ بکری کے ساتھ چار لڑکوں نے اوکاڑہ میں بد فعلی کر کے اپنے مردانہ اوصاف میں اضافہ کیا ہے۔ میرے ناتواں قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اس بربریت پر اور لکھ سکوں۔ میں سماج کے راہنماؤں اور انصاف کی کرسی پر بیٹھے منصفوں سے پوچھتا ہوں کہ عورت کو کب تک صرف جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھ کر لوٹا جائے گا۔ اسے قتل کیا جائے گا۔ انصاف کی کرسی خدا کی کرسی ہے جس پر بیٹھ کر منصف نے خدائی منصب سنبھالا ہوا ہے۔ اس منصب کی لاج رکھتے ہوئے ظاہر جعفر جیسے درندے کو بھی ویسی سزا دی جائیگی یا نہیں جس کا وہ مستحق ہے۔ مجھ سمیت سب پاکستانی جانتے ہیں کہ نسیم کا مجرم معاشرے کا ادنیٰ فرد ہے اسے موت کی سزا دینا معزز عدالت کے لئے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ظاہر جعفر جیسے  مکرو مجرم کیلئے بھی وہی قانون ہے یا وہ قانون سے بالا تر ہے۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔