یہ ملک ان ویڈیوز کے بل پر چل رہا ہے جو اب تک لیک نہیں ہوئیں

یہ ملک ان ویڈیوز کے بل پر چل رہا ہے جو اب تک لیک نہیں ہوئیں
پاکستانی سیاست جو کہ طاقت کے شو کے اعتبار سے ایک جمود کا شکار تھی اس کا یہ خاموش توازن زبیر عمر ویڈیو سکینڈل نے پاش پاش کر دیا ہے۔ سکینڈل اس وقت ملک کے روایتی میڈیا کی شہ سرخیوں اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز میں نمبر ایک پر ہے۔ سکینڈل کی تفصیل کے مطابق محمد زبیر کی لیک ہونے والی ان متعدد مبینہ ویڈیوز میں انہیں مختلف کمروں میں الگ الگ خواتین کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی حالت میں دیکھا گیا۔

ان ویڈیوز میں محمد زبیر مبینہ طور پر نیم برہنہ و برہنہ حالت میں دکھائی دیے۔ ویڈیوز کے علاوہ محمد زبیر کی ایک خاتون سے کی جانے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی جس میں وہ خاتون سے جنسی سوال پوچھتے ہوئے نازیبا گفتگو کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ویڈیوز منظر عام پر لانے والے ذرائع نے کہا کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ان خواتین میں سے کچھ کو میڈیا میں نوکریاں دلوانے کا جھانسہ دیا اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کیں جب کہ کچھ خواتین کو ڈرا دھمکا کر اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ دوسری جانب محمد زبیر نے اپنے ردعمل میں ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ کوئی سیاست نہیں بلکہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ انہوں نے ویڈیو کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کے پیچھے جو بھی ہے اس نے انتہائی شرم ناک حرکت کی'۔

یہاں یہ بات حقیقت سے خالی نہیں کہ اس ویڈیو سکینڈل اور اس کی نوعیت میں صرف زبیر عمر کا نام نیا ہے ورنہ جنسی سکینڈلز کی یہ ویڈیوز یا تصاویر تو اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ پاکستان کی تاریخ۔

یحیحیٰ خان کے جاتے اقتدار کے دنوں میں اس کی رنگینیوں کا سیاسی پرچار ہو یا پھر بے نظیر بھٹو کی ڈاکٹرڈ تصاویر جنہیں جہاز سے گرایا جاتا رہا، یہ سب کچھ نیا تو نہیں۔ لیکن حالیہ دور حکومت بلکہ دور ہائبرڈ نظام میں جس طرح سے ان ویڈیوز کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے یہ جدید دنیا کی کوئی ریاست نہیں بلکہ مافیا ٹاؤن ہے۔ جہاں جنسی سکینڈلز کی وڈیوز گولیوں کی طرح چلتی ہیں اور مخالفین کو راہ راست پر لانے کے لئے وارننگ دی جاتی ہے۔ وہ نہ سنیں تو تو انہیں ان گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ اب تو صاف ہو گیا ہے کہ کون کس سے کیوں اور کیا کروانا چاہتا ہے۔ جنگل کی اس داستان میں بوڑھے شیر نے اپنی مزاحمت تیز کر دی ہے اور مخالفین کو لگتا ہے کہ جنگل کے عوام شیر کو چاہتے ہیں تو بس پھر اب اس کے حواریوں کو ایک ایک کر کے عوام کی نظروں میں مشکوک اور متنازعہ بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک مافیا وار ہے۔ انسانی جنگل کی۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ ساتھ ہو تو ٹھیک، نہیں تو اوپر۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ مافیا جس کا ریکارڈ پہلے بھی واضح رہا ہے کہ کس طرح جج ارشد ملک اور پھر کس طرح نیب چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سر تا پاؤں پیار کرتی ویڈیوز کو لیک کر کے من مرضی کے فیصلے کروائے جاتے ہیں، وہاں اس مافیا ٹاؤن میں رہ کر مافیا کو للکارنے والے کس طرح اتنے غیر ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔

زبیر عمر کہتے ہیں کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔ اس کا فیصلہ تو کوئی فرانزک ایجنسی ہی کر سکتی ہے۔ تاہم، جن کی وہ ترجمانی کرتے ہیں وہ خود بھی اس پر خاموش ہیں۔ ویڈیو کا فیصلہ جو بھی ہو، ایسے میں یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک وہ گروہ جو اس گروہ کے مخالف ہے جو کسی مافیا سے کم نہیں، اس کے خلاف متحرک گروہ کے اراکین کو تو کردار کے اس معیار پر ہونا چاہیے جو خود ایک مشعل راہ ہو۔ جس معاشرے سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ووٹ طلب کرتے ہیں، وہاں یہ جانتے ہوئے کہ مخالف کیسے رقیق حملے کر سکتا ہے، وہاں اگر آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ صرف اپنے شریک حیات تک ہی محدود رہنا چاہیے تو یقیناً آپ کسی تحریک کو چلانے یا اس کی رہنمائی کرنے اور ترجمانی کرنے کے قابل بھی نہیں۔ ایسے افراد جو رہنما معاشرہ بننے کے دعوے دار ہوں اور پھر اس رتبے کا پاس نہ کر سکیں تو کم از کم وہ کسی مزاحمتی نظریے کے علمبردار نہیں ہو سکتے۔ بلکہ یہ ناخدا کے وہ ساتھی بن سکتے ہیں جن کی عادت گناہ سے سفینے میں ہونے والے سوراخ اسے لے ڈوبتے ہیں۔ اس کیس میں بھی ترجمان کو ترجمان بنانے والے خاموش حلقوں کا سوچنا ہوگا۔

یہ ویڈیو کوئی آخری بھی نہیں۔ پچھلے تین چار سال میں شیخ رشید ہوں، فیاض الحسن چوہان، مفتی عبدالقوی، آسیہ خٹک، آغا سراج درانی، مفتی عبدالعزیز یا پھر چیئرمین نیب جاوید اقبال اور مرحوم جج ارشد ملک، اس قسم کے الزامات تو لگتے ہی رہے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ملک ان ویڈیوز کے بل پر چل رہا ہے جو اب تک لیک نہیں ہوئیں۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یوں سیاست نہیں ہوتی، یہ حرکتیں اغوا کاروں اور مافیاز کی تو ہو سکتی ہیں، ریاستوں کو ایسے نہیں چلایا جانا چاہیے۔ ورنہ ایسے ہی چلتی ہیں جیسے یہ چل رہی ہے۔