پی ٹی آئی حکومت جبری تبدیلی مذہب کو مسئلہ ماننے سے گریزاں

پی ٹی آئی حکومت جبری تبدیلی مذہب کو مسئلہ ماننے سے گریزاں
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے منافقت اور عیاری سے کام لیتے ہوئے جبری تبدیلی مذہب کے بل پر جاری بحث کو ایک طرف رد تو دوسری طرف اسے محض سندھ کے چند اضلاح کی ہندو لڑکیوں تک محدود کر دیا ہے۔

تحریک انصاف کی اشرافیہ کے مطابق مسیحیوں، جن کی زیادہ تر آبادی پنجاب میں رہتی ہے، کی نہ تو کوئی عزت ہے اور نہ ان کی کم عمر لڑکیوں کو جنسی درندوں سے تحفظ فراہم کرنے کی کوئی ضرورت، کیونکہ یہی خیال پاکستان کے عام لوگوں کا بھی ہے۔ ان کے لئے مسیحی اور صفائی کرنے والے ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ چونکہ صفائی کرنے والے کی کوئی عزت نہیں ہے اس لئے مسیحیوں اور ان کی بیٹیوں کی بھی کوئی عزت نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو ارکان قومی اسمبلی نے جُرات کا مظاہرہ کیا اور جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہونے والی ہندو لڑکیوں کے لئے آواز اُٹھائی، یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی پارٹی کی طرف سے بل کے رد کئے جانے کو بھی مایوس کُن قرار دیا ہے۔

اس میں لال چند ملہی اور ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی کا نام لیا جانا ضروری ہے۔ لال چند ملہی جو خود بھی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں، کا کہنا ہے کہ جنسی درندوں کو کُھلی چُھٹی دے کر اقلیتوں کو دیوار سے لگایا اور مُلک کو اقلیتوں کے لئے جہنم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

2017ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مسیحی پاکستان کی دوسری بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے مسیحی اراکین قومی اسمبلی جن میں شنیلا روتھ سرفہرست ہیں، انہوں نے ماضی کے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے زیادہ تر مسیحی ارکان اسمبلی کی اقلیتیوں اور اپنی برادری کے لئے کوئی تعمیری کام نہ کرنے کی روایت کو زندہ رکھا اور جبری تبدیلی مذہب پر بننے والی پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی سے دُور رہیں۔

اس کمیٹی میں انسانی حقوق کی وزارت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جناب پیر نُورالحق قادری نے کی جبکہ شُنیلا روتھ جو اسی وزارت کی پارلیمانی سیکرٹری بھی ہیں اور کمیٹی کا حصہ بھی، وہ نہ تو کمیٹی کی کارروائی کا حصہ بنیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی بیان جاری کیا گیا۔

پارٹی کے مسیحی کارکنان کے مطابق شنیلا روتھ گرمی سردی کے اس ماحول میں مُلک سے باہر چلی گئیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تحریک انصاف کے مسیحی ارکان اسمبلی کی اس نااہلی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جبری تبدیلی مذہب کے معاملہ کو محض ہندو بچیوں اور اندرون سندھ تک محدود کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں ہندووں کے علاوہ اور بھی مذہبی اقلیتیں رہتی ہیں جن میں مسیحی، پارسی، سکھ، بہائی اور احمدی سرفہرست ہیں۔ سینٹر فار لا اینڈ جسٹس کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق صرف مسیحی اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ان کی نابالغ لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کا عمل جاری ہے۔

پچھلے سال کراچی کی چودہ سالہ آرزو راجہ کے چھیالیس سالہ سید اظہر علی سے شادی کا معاملہ سب کی نظر میں ہے۔ ایسے بے شمار واقعات پنجاب سے رپورٹ ہو چُکے ہیں مگر حکومت اور ان کے حواری مسیحیوں اور خصوصاً پنجاب اور دیگر صوبوں کی شہری آبادیوں کی مسیحی نابالغ بچیوں کو کسی کھاتے میں بھی گننے کو تیار نہیں ہیں۔

جبری تبدیلی مذہب کی اس ساری بحث میں سیالکوٹ کی مسیحی خاتون عاصمہ یعقوب کا ذکر ہی نہیں کیا جا رہا جس کو اپنا مذہب نہ چھوڑنے کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ یہ واقعہ اپریل 2018ء کا ہے۔

چوبیس سالہ عاصمہ کو جب ہسپتال پہنچایا گیا تو وہ تقریباً 80 فیصد جل چکی تھیں۔ ہسپتال میں عاصمہ نے اسی نزعی حالت میں پولیس کو اپنے والد کی موجودگی میں بیان دیا کہ اس کا تعلق محمد رضوان گجر نامی شخص سے تھا جو اُسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

عاصمہ نے بتایا کہ اس کا اصرار تھا کہ اگر شادی کے لئے تبدیلی مذہب کا ہی معاملہ ہے تو رضوان مسیحیت اختیار کرے کیونکہ اسے اپنے مسیحی مذہب سے بے حد پیار ہے۔ وقوعہ کی رات، اسی کشمکش میں، رضوان جب عاصمہ سے ملنے آیا تو اُس نے عاصمہ کی ٹانگوں پر پیٹرول چھڑک کر کہا کہ وہ مسیحیت کو ترک کرکے مسلمان ہو جائے ورنہ وہ اسے آگ لگا دے گا۔

تاہم عاصمہ نے صاف انکار کر دیا۔ جب اس نے ماچس سے آگ جلائی تو پیٹرول نے آگ پکڑ لی اور عاصمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رضوان نے واقعہ کے بعد پولیس کو بتایا کہ چونکہ وہ دونوں اپنا مذہب نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اس لئے عاصمہ نے اُس رات اُسے آخری بار ملنا تھا اور اپنا فیصلہ سُنانا تھا۔ محمد رضوان کے مطابق اُس نے صرف ڈرانے کی خاطر آگ جلائی جو پیٹرول تک پہنچ گئی اور عاصمہ کو جلا ڈالا۔

عالم یہ کہ خوف زدہ اقلیتیں اب ہر مسلمان سے تعلق رکھنے سے ڈرتی ہیں۔ اپنی عزت بچانے کی خاطر یہ لوگ اپنے لڑکوں کو خصوصی تاکید کر رہے ہیں کہ وہ گھر میں کسی مسلمان مرد دوست کو نہ بلائیں کیونکہ بعد میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

مگر دوسری طرف حکومت مٹی پاوُ کی سیاست کے تحت جبری تبدیلی مذہب کو کوئی مسئلہ ہی ماننے سے گریزاں ہے۔ اس حال میں جبکہ وفاقی انسانی حقوق کی وزارت نے مذہبی امور کی وزارت کے سامنے جبری تبدیلی مذہب کے بل پر اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، پاکستان کی اقلیتوں خاص طور پر مسیحیوں کا بس خدا ہی حافظ ہے۔