عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لئے امید کی کرن جو ہراساں ہو رہی ہے

عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لئے امید کی کرن جو ہراساں ہو رہی ہے
ہر سال عورت 8 مارچ کو ملک کے مختلف علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں یہ مارچ کراچی، حیدر آباد، اسلام آباد، ملتان اور پشاور تک پھیل چکا ہے اور اکثر اس میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو پڑوسی شہروں سے آتے ہیں اور پھر ان خیالات کو اپنی برادریوں تک لے جاتے ہیں۔ ملتان اور جنوبی پنجاب میں، این جی اوز نے ان گنت مسائل کے خلاف تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لیے برسوں کے دوران ترقی کی ہے، لیکن نچلی سطح پر متحرک ہونے کا سلسلہ بہت کم ہے۔

چونکہ 8 مارچ پورے ملک میں ایک سالانہ فکسچر بن گیا ہے۔ ہر سال ایک نئی قسم کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔ متنازعہ سمجھے جانے والے نعروں کے ساتھ پوسٹرز، کسی ممنوع موضوع کو اجاگر کرنے والی تصاویر، یا جشن میں خواتین کے رقص کرنے کی ویڈیوز میڈیا میں ہنگامہ برپا کرنے کے لئے کافی ہیں، جس سے خواتین کی تحریک کو ملک میں غلط بیانی اور بے عزتی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ حکام منتظمین اور مظاہرین کو اس قسم کے ردعمل سے بچانے کے لئے بہت کم کام کرتے ہیں۔

ملک میں خواتین مارچ کے ناقدین کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ عورت مارچ کے حق میں بولنے اور اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ تر اشرافیہ سے ہے۔ اصل بحث تب شروع ہوتی ہے جب عورت مارچ کے بعد معاملات سوشل میڈیا پر نظر آنے لگتے ہیں۔ ناقدین بھی انتہائی سطح پر جا کر ان پوسٹروں کا پروپیگنڈا کرتے ہیں جنہیں خواتین اٹھاتی ہیں اور نعرے لگاتی ہیں۔ وہ اس پر لکھے گئے الفاظ کو تبدیل کرنے کے لئے فوٹو شاپ کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے بحث اور گرم ہو جاتی ہے۔

عورت مارچ کو نظر انداز کرکے اگر عورتوں کی حالت زار پر ایک نظر ڈالی جائے تو وہ کیسی ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان خواتین کے رہنے کے لئے بدترین ممالک میں سے ایک ہے، جسے خواتین کے سماجی حقوق سے انکار، امتیازی سلوک، غیرت کے نام پر قتل، وحشیانہ عصمت دری اور عبدوک میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ورلڈ بینک ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں خواتین کی کل آبادی 48 فیصد ہے جس میں مزید کام کرنے والی عورتیں صرف 22 فیصد ہیں جو کہ مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے جو کہ 68 فیصد ہے۔

2018 کی ورلڈ اکنامک رپورٹ میں خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے پاکستان کو 149 ممالک میں سے 148 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے گذشتہ سال گھریلو اور آن لائن تشدد کی شکایات میں اضافہ درج کیا، جو وبائی امراض کے دوران خواتین کے لئے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی نے 2020 میں غیرت کے نام پر قتل کے 430 واقعات درج کئے جن میں 363 خواتین متاثرین شامل تھیں۔ پنجاب پولیس نے صرف ایک صوبے میں 2021 کے پہلے چار مہینوں میں اجتماعی زیادتی کے 53 مقدمات درج کیے تھے جن اب 2022 میں مزید بڑھ گئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان سے بی بی سی کے ایک انٹرویو کے دوران ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان جیسی جگہ پر معاشرے میں فتنہ کو روکنے کے لئے خواتین کو خود کو ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔ خان صاحب نے قومی ٹیلی ویژن پر ایک اور انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جنسی حملہ فحاشی کی پیداوار ہے۔

گذشتہ سال ستمبر میں پاکستان میں لاہور اور سیالکوٹ ہائی وے پر ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون مدد کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کی گاڑی کا ایندھن ختم ہو گیا، اس وقت دو آدمی آئے اور بندوق کی نوک پر اس کے ساتھ زیادتی کی۔ ملزمان کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم، واقعہ کی تفصیلات عام ہونے کے بعد بھی پاکستانی خواتین کو اجتماعی صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیس پر کام کرنے والے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) نے قومی ٹیلی ویژن پر کہا کہ متاثرہ کو وہ راستہ نہیں اختیار کرنا چاہیے تھا جو اس نے لیا تھا۔

ریاست کے حکمران اور ریاستی اداروں کے سربراہ ایسے معاملات میں ہمیشہ مظلوم کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ اس کی طرفداری کرنے کے بجائے اس کے کردار کا پتا لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر وہ ملزم کو بھول جاتے ہیں جس کی آڑ میں اسے سزا نہیں مل پاتی۔

اپریل 2021 میں گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اسی دن منظور کر لیا گیا۔ تاہم جب یہ بل سینیٹ میں پہنچا تو اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اسے ترامیم کے لئے قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔

بل میں کہا گیا تھا کہ گھریلو تشدد میں وہ تمام جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی استحصال شامل ہیں جو خواتین، بچوں، یا کسی دوسرے کمزور افراد یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ کئے گئے ہوں جن کے ساتھ ملزم کا گھریلو تعلق رہا ہو۔ البتہ یہ بل اب تک منظور نہیں ہو سکا۔

ہم اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں اردگرد گھروں میں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے۔ کیا اس دور میں بھی ایک عورت اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کر سکتی ہے؟ کیا وہ اپنی مرضی سے اپنی پسند کی شادی کر سکتی ہے؟ کیا وہ رات کو اکیلی سفر کر سکتی ہے؟ رات چھوڑیں کیا وہ دن میں بغیر کسی کے ہراساں کئے اپنی منزل کی طرف جا سکتی ہے؟

کیا وہ اپنی مرضی سے باہر نکل کر کام کر سکتی ہے؟ یقیناً ان جیسی خوش قسمت خواتین کی تعداد ملک میں بہت کم ہے جو باہر نکل کر کام کر سکتی ہوں۔

آج بھی بہت سی حواتین جبری شادیاں میں ہونے والی زیادتیوں کو جھیل رہی ہیں۔ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں، وہ ویسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

آخر وہ وہاں سے آزادی لے کر جائے گی کہاں؟ کیا کوئی اس کو ہنر یا کوئی کام سکھایا گیا جسے وہ اس جبری شادی سے آزاد ہونے کے بعد استعمال کر سکیں؟ اگر وہ آزاد ہو کر نکل بھی آئے اور کام کرنے لگ جائے تو کیا سماج اسے سکون سے کام کرنے دے گا؟ کیا اسے آرام سے جینے دے گا؟

ان سب سوالوں کے جوابات ابھی تک نہیں دیے جا سکے اور شاید اس سماج میں کوئی دے بھی نہیں سکتا۔

عورت مارچ غلط ہو یا صحیح لیکن عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لیے امید کی کرن ہے جو ہراساں ہو رہی ہے۔ عورت مارچ کے حق میں نکلنے والے عورتوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر ہی نکلتے ہیں۔

جو اس پر نفرت انگیز انداز میں بات کرتے ہیں وہ ابھی پدر شاہی نظام میں اٹکا ہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے جس میں مرد اور عورتیں کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہے ہیں۔

ہمیں بھی اپنے سماج کی عورتوں کو خود مختار بنانا ہوگا۔ خود مختار عورت ایک بہترین سماج کی علامت ہوتی ہے۔ پڑھی لکھی مائیں بہترین نسل کو پروان چڑھائے گی، جس کے بدلے میں ایک بہترن معاشرہ وجود میں آئے گا۔