• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, مارچ 26, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

تحریک انصاف کے پاس قبلہ درست کرنے کا آخری موقع ہے

"پاکستان کی قومی اسمبلی میں لگ بھگ آدھی عوام کا مینڈٹ آپکے پاس ہے جس کی نمائندگی محرومیت کا شکار ہے۔ اسمبلی کا توازن بگڑا ہوا ہے، عوام کو چوکوں چوراہوں میں نہ رلائیں بلکہ قوم اسمبلی میں ان کی آواز بنیں ایسا نہ ہو کہ غلط پالیسی کی وجہ سے یہ حق بھی چھن جائے۔ "

ڈاکٹر ابرار ماجد by ڈاکٹر ابرار ماجد
جون 2, 2022
in تجزیہ
51 1
0
تحریک انصاف کے پاس قبلہ درست کرنے کا آخری موقع ہے
60
SHARES
287
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ سے استعفوں کی تصدیق کے لئے نوٹسز جاری کردئے گئے ہیں جس کا عمل 4 سے 10 جون تک چلے گا اور اس کے بعد جو تصدیق کردیںگے ان کے استعفےٰ قبول کرکے معلومات الیکشن کمیشن کو بھیج دی جائیں گی ۔

اب تحریک انصاف کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وہ اسمبلی کے اندر سیاست کرنا چاہتے ہیں یا چوک چوراہوں میں ۔ سیاست کا صحیح مقام جہاں عوام کی خدمت کی ذمہ داریاں ادا کی جاسکتی ہیں وہ اسمبلی ہے جہاں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کرکے بھیجتی ہے اور وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملک و قوم کی فلاح کے لئے کام کرتے ہیں یہی عوامی خدمت ہوتی ہے ۔

RelatedPosts

‘اظہر مشوانی جبری گمشدگی کا شکار ہیں، کوئی اگر مگر قابل قبول نہیں’

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

Load More

2014 میں بھی میں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کو اسمبلی کا فورم نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اس وقت کے کالم “کپتان کے نام” سے پیرے ملاحظہ فرمائیے جو درج ذیل ہیں :

” بے شک اصل سر چشمہ طاقت عوام ہی ہوتے ہیں اور عوامی رائے کافی ہموار ہو چکی اور اب جلسے جلوس چھوڑ کر پارلیمنٹ کا رخ کیا جائے ، عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ کے اندر بھیجا جائے ،جو حقیقی تبدیلی لانے کی جگہ ہے۔ اگر عوامی پریشر کو آپ ڈویلپ رکھنا ہی چاہتے ہیں تو علامتی طور پر ڈی
چوک میں آپ اسے دھرنے کے طور پر رکھ سکتے ہیں اور مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور پھر آپ کا یہ مطالبہ کہ جب تک جائز اور جمہوری مطالبات پورے نہیں ہوتے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، اصولی اور اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اور اس طرح آپ عوامی پریشر بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی روزانہ کی بنیا د پر کارکردگی رپورٹ بھی ان کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض حلقوں میں جلوسوں سے جو ترقی کی راہ میں رکارٹ کے خدشات ہیں نہ صرف وہ دور ہوں گے بلکہ وہ لوگ جو ہر تبدیلی آئینی حدود کے اندر رہ کر لانے کے اصولی خیال پر کاربند ہیں او ر تبدیلی آتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، بہرحال وہ بھی اس ریاست کے شہری ہیں ان کی خواہش کا بھی احترام ہوگا اور عوامی مینڈٹ کا بھی۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ آپ وہ تمام مقاصد جو عوامی فلاح اور اصولی تبدیلی کے ہیں پورے کر سکتے ہیں۔ اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کا بھی آپکو موقعہ مل سکتا ہے”

” سیاست تو ایسی خدمت کا نام ہے جس میں عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حتی الوسع کوشش کرکے ریاست کے اندر بہتری لائی جائے ۔ اور یہ کوششیں تفویض کردہ حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ یا اپوزیشن میں رہ کر عوامی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بننے کی کوششوں کے ساتھ
عمل میں لائی جا سکتی ہے”

” سیاسی پارٹیاں خواہ حکومت کے اندر ہوں یا عوام کے اندر ان کا کام عوامی خدمت ہوتا ہے اور وہ عوامی امیدوں اور امنگوں کے مطابق سر انجام دیتی رہتی ہیں اگر اپوزیشن میں ہوں تو بھی ان کی مثبت سرگرمیاں قابل تحسین ہوتی ہیں ۔ وہ حکومت کی اچھی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہیں اور اگر پالیسیاں غیر پسندانہ ہوں تو آئینی حدود کے اندر رہ کر ان کی تصیح میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ جماعتیں جو پارلمنٹ میں نمائیندگی نہیں حاصل کر پاتیں وہ بھی خدمت کا کام اپنی بساط کے مطابق جاری رکھتی ہیں۔ صحیح عوامی اور قومی سیاسی جماعتوں کی اصلی مقصود منزل عوامی خدمت ہی ہوتا ہے نہ کہ اقتدار کا حصول اگر عوام ان کو ذمہ داری سونپ دیں تو قانونی اور آئینی حدود میں رہ کر خدمات کی ترسیل میں لگی رہتی ہیں”

آج ایک بار پھر تحریک انصاف کی سیاست اسی موڑ پر کھڑی ہے ۔ آپ درج بالا پیرے پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ آج کے حالات کے ساتھ کتنی مماثلت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے عوامی زور کی رفتار اور مقدار کا اندازہ لگا لیا ہے اب ان کو اسمبلی میں اپنی نمائندگی کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔

خیبر پختونخواہ میں ان کے پاس حکومت ہے تواس نے ان کے لئے کتنے فائدے کا کردار ادا کیا ہے ۔ اسی طرح اگر قومی اسمبلی میں بھی موجود ہوں گے تو ان کی عوامی بھلائی کی بات کوئی سنے یا نہ سنے عوام تو سن رہی ہوگی ۔ بجائے اس کے کہ وہ صوبے میں بیٹھ کر وفاق کے ساتھ آمنے سامنے والا تاثر پیش کریں انکو قومی اسمبلی میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

ابھی جو اپوزیشن ہے اس کو لوگ ڈمی کہہ رہے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسے مفاہمتی اپوزیشن تو کہا جاسکتا ہے مگر ڈمی نہیں ۔
وہ بھی عوامی مینڈٹ رکھتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ حکومت کے لئے ہر حال میں مشکلات پیدا کریں تو ہی صحیح اپوزیشن کا کردار ہوتا ہے ۔ اچھی پالیسیوں پر ساتھ دینا بھی ملک و قوم کی خدمت ہی ہے ۔

رہی بات نئے الیکشن کی تو تحریک انصاف کو حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ موجودہ حالات کا جائزہ اعداد و شمار کے اندازے پر لگانا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ۔ حال ہی میں بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج ان کے سامنے ہیں حالانکہ وہاں صوبائی حکومت بھی انکی ہے اور نتائج کے اعداد و شمار کے مطابق وہ نوویں نمبر پر ہیں ۔

حالیہ مارچ میں پکڑدھکڑ اپنی جگہ مگر خیبر پختونخواہ میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت تھی ، کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی ، اس کے باوجود وہاں سے وہ بیس ہزار لوگ نہیں نکال سکے ۔ اسی طرح کشمیر ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بھی صورتحال ہے ۔

ابھی اگر پنجاب کے ضمنی الیکشن کا ماحول بنتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا ٹیسٹ ہے اس سے واضح ہوجائے کہ پنجاب میں آپکی کیا پوزیشن ہے۔ اس ضمنی الیکشن تک قومی اسمبلی میں مثبت اپوزیشن کرکے اپنے بارے منفی تاثر کو درست کرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ عوامی رابطہ مہم جس طرح باقی سیاسی
جماعتوں نے جاری رکھی ہوی ہے چلاتے رہیں ۔

جہاں تک عدالت عالیہ سے اپنے حقوق کی پاسداری کے لئے ضمانت والی حکمت عملی کا تعلق ہے وہ اچھا تاثر نہیں دے رہی ۔ اس سے نہ صرف انکی بے بسی کا عنصر سامنے آرہا ہے بلکہ عدالت عالیہ کی حکم عدولی کے واقعات ان کے پلڑے میں بھی ہیں جن کا تحفظ کرنا مشکل ہوجائے گا ۔

ویسے بھی قومی اسمبلی میں ایک بھاری تعداد ہونے کے باوجود اپنے آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت کی طرف رجوع کرنا اتنا پر اثر نہیں جتنا قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق کے زریعے سے حکومتی اقدامات کو بے نقاب کرنا ہے ۔ حکومت کا انتظامی امور میں کوتاہی یا نااہلی پر اسمبلی میں ہی مواخذے کا طریقہ موجود ہے جس کو اپنانا چاہیے ۔ ہر معاملے میں عدالت پہنچ جانا پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت کی رسوائی ہے ۔ پارلمنٹ قانون ساز ادارہ ہے جس کو اپنی عظمت کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔

اگر پرامن احتجاج کے لئے ساری رکاوٹیں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور وہ ایک جم غفیر اکٹھا بھی کر لیتے ہیں تو بھی اس میں آئینی اور قانونی اعتبار سے اسمبلیوں کے ختم ہونے کا کوئی حل نہیں ہے نہ ہی یہ جمہوریت کی خدمت ہوگا ۔ وہ اسمبلیاں جن کے جائز ہونے کی فقط ان کی پارٹی حامی تھی اور اب صوبائی اسمبلیوں سے تو استعفے اس لئے نہیں دے رہی کہ وہاں ان کی حکومت ہے مگر چونکہ مرکز میں انکی حکومت ختم ہوگئی ہے تو دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ یہی مطالبہ پچھلے پونے چار سال سے ہوتا آرہا تھا جسے وہ نظر انداز کررہے تھے۔
۔

ابھی دوبارہ مارچ کی کال سے پہلے تو ویسےبھی عوام اور جماعت کے ورکروں کے تحفظات ، شکوے اور مایوسیاں جو سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ، جوابات کا حق رکھتے ہیں ۔ پہلے دوبارہ سے تنظیم سازی کیجئے ، حوصلے بڑھائیے ، مسائل اور ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ دیں ۔ دوبارہ سے عوامی زور کی رفتار اور مقدار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے نہیں تو پہلے سے بھی کم مقدار دیکھنے
کو ملے گی ۔

اپنی غلطیوں کی وجہ سے اب وہ خیبر پختونخواہ میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں ۔ تمام کی تمام مرکزی قیادت وہاں بیٹھی ہے ۔ بارہ کروڑ کی آبادی کا صوبہ پنجاب خالی پڑا ہے اور کوئی بھی انکے بیانیے کو لے کر چلنے والا نہیں ۔ آنے والے دنوں میں ان کے لئے اور زیادہ مشکلات کھڑی ہوجائیں گی ۔
جیسے کہ پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ وہ گرفتاریوں کے خوف سے وزیر داخلہ ہاؤس میں پناہ لئے بیٹھے ہیں ۔ جو ان کی اس حکومت کو بھی متنازع اور مشکل میں ڈال سکتا ہے ۔

پریس کانفرنسز کا پول بھی کھل کر سامنےآگیا ہے کہ وہ صرف اے آر وائی کے تجویزاتی سوالوں کا جواب دینے کی سکت رکھتے ہیں اور اگر طبیعت کے خلاف کوئی سوال کر لیا جائے تو پریس کانفرنس چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں اچھا تاثر نہیں مل رہا ۔ ہر سطح پر میڈیا کا سامنا کرکے تاثر کو، بدلنا ہوگا ۔

اب بھی بہتری اسی میں ہے کہ الیکشن مالیخولیا سے اپنے آپ کو باہر نکالیں اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دلیرانہ سیاست کریں ۔ گرفتاریوں کا سامنا کریں ۔ جیلیں کاٹیں تب جاکر اس ملک کی روایات کے مطابق سیاست کرنا آتی ہے ۔ حوصلے کی تربیت ملتی ہے ۔ اپنے بیگانے کی تمیز آتی ہے ۔ اپنے محسنوں کی قدر کا احساس جاگتا ہے ۔ اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی سکت پیدا ہوتی ہے ۔

قومی اسمبلی کے استعفوں کو واپس لیں اور وہاں جانے کا ماحول بنائیں ۔ مشکل سہی مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جو آئینی امیج کو بحال کرسکے ۔ مذاکرات کا دور شروع کریں ۔ امید ہے حکومت ان کو خلا مہیا کرے گی ۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں دس کروڑ کے لگ بھگ عوام کا مینڈٹ آپکے پاس ہے جس کی نمائندگی محرومیت کا شکار ہے ۔ اسمبلی کا توازن بگڑا ہوا ہے ۔ وہاں ایک جاندار اپوزیشن کی ضرورت ہے اور آپ چھپتے پھر رہے ہیں ۔ اب ٹچ سکیمیں چلنے والی نہیں اب سنجیدگی کے ساتھ جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری حلقوں میں اپنی ساکھ کو بہتر بنا کر حقیقی جمہوری دوڑ میں شامل ہونے کا وقت ہے ۔ عوام کو چوکوں چوراہوں میں نہ رلائیں بلکہ قوم اسمبلی میں ان کی آواز بنیں ایسا نہ ہو کہ غلط پالیسی کی وجہ سے یہ حق بھی چھن جائے ۔

Tags: اپوزیشنپی ٹی آئیتحریک عدم اعتمادحکومتعمران خانقومی اسمبلی
Previous Post

اسد قیصر کے بھائی پر ایف 9 پارک کے انٹرٹینمنٹ زون پر غیر قانونی قبضے کا الزام

Next Post

محمود خان کا بیان کہ KP فورس لاؤں گا، امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو؟

ڈاکٹر ابرار ماجد

ڈاکٹر ابرار ماجد

Related Posts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

by ایمان زینب مزاری
مارچ 25, 2023
0

یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ...

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

by عبید پاشا
مارچ 24, 2023
0

کئی برس پہلے عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے تھے کہ...

Load More
Next Post
محمود خان کا بیان کہ KP فورس لاؤں گا، امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو؟

محمود خان کا بیان کہ KP فورس لاؤں گا، امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In