وطن عزیز پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مستقبل

وطن عزیز پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مستقبل
تحریک پاکستان کا اگر مکمل جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا مقدمہ آئینی اور جمہوری انداز سے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جیتا اور 1945-46ء کے انتخابات میں کانگریس کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔

معروف محقق اور تاریخ دان جناب اَسٹنلے والپرٹ (Stanley Walporct) نے کتاب جناح آف پاکستان میں قائداعظم کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ محمد علی جناح کے بدترین مخالفین بھی ہمیشہ سے آپ کے اخلاق وکردار اور سیاسی بصیرت کے معترف رہے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح ہندوستان کے چند ایسے لیڈروں میں سے تھے جو پُرامن سیاسی اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ سے ہی پرتشدد سیاسی سرگرمیوں کے مخالف رہے اور کبھی بھی پابندِ سلاسل نہ ہوئے۔ آپ کا اخلاق وکردار اور سیاسی فلسفہ یقیناً موجودہ سیاست دانوں اور نئی نسل کے لیے ایک عمدہ نمونہ ہے۔

بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قیام باکستان سے پہلے ہی انہوں نے اپنی متعدد تقاریر، فرمودات اور افکار میں صاف اور واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کی نئی مملکتِ خدادادِ پاکستان کا مستبقل صرف اور صرف جمہوریت اور آئین کی بالادستی سے ہی وابستہ ہوگا۔

آپ نے صاف اور واشگاف الفاظ میں کئی مرتبہ وطن عزیز پاکستان میں آئندہ بننے والی حکومتوں اور خصوصاً بیورو کریسی کو تاکید کی تھی کہ آپ کا کام صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بانی پاکستان کی ناسازی طبع اور جلد رحلت کے ساتھ ہی غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی روایات کو چند مفاد پرست ٹولے نے پروان چڑھانا شروع کر دیا حتیٰ کہ ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آپ کے فرمودات، افکار اور تقاریر کو بھی جو روشن خیالی، جمہوریت پسندی، مساوات، قانون کی حکمرانی، انصاف پسندی پر مبنی تھیں، جو جدید دنیا کے لیے بھی ایک مثال تھیں انہیں بھی متعدد ردوبدل اور تحاریف کا نشانہ بنایا گیا یا پھر انہیں سرے سے ہی غائب کردیا گیا۔

سیاسی قیادت کی ناعاقبت اندیشی، غیر جمہوری، غیر آئینی، غیر پارلیمانی، غیر اخلاقی، غیر سماجی رویوں کی بدولت ملک ایک طویل عرصے تک غیر سیاسی قوتوں کے تابع رہا۔ جس سے جمہوریت، جمہوری اداروں، قانون کی بالا دستی، جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچا اور عوام ایک لمبے عرسے تک انتخابی عمل سے یا تو محروم رہے یا پھر غیر جمہوری قوتوں کے زیر سایہ صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات سے بھی ایک طویل عرصہ تک محروم رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کسی حد تک سیاسی تربیت سے بھی محروم رہے۔ یاد رہے برصغیر پاک وہند میں نوآبادیاتی نظام کی بدولت ہی وطن عزیز پاکستان میں بھی پارلیمانی جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔

اُمید واثق تھی کہ وطن عزیز میں جاری پارلیمانی جمہوری نظام بھی برطانوی جمہوری پارلیمانی نظام کی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور برطانوی قانون ساز ادارے کی طرز پر جسے حقیقتاً تمام قانون ساز اداروں کی ماں (Mother of All parlimanent) کہا جاتا ہے کی طرز پر وطن عزیز پاکستان میں بھی کامیاب وکامران ہوگا، نیز یہ بھی اُمید تھی کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا پارلیمانی سیاسی فلسفہ کامیاب ہوگا لیکن یہ محض قیاس آرائیاں ہی رہیں اور غیر جمہوری مخفی قوتوں کی جانب سے کنڑولڈ ڈیموکریسی (Controlled Democracy) کا ایک نیا مضحکہ خیز نظریہ گڑھا گیا اور عوامی رائے کا برملا مذاق اڑایا گیا اور آج وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوریت شدید خطرات سے دوچار ہے۔

وطن عزیز پاکستان کے عوام کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ متعدد نام نہاد زِیرک سیاست دان دراصل مارشل لا کے گملے کی پیداوار ہیں اور شاید طویل عرصے تک ملکی سیاست میں راج کرنے کے باوجود بھی آئین کی بالا دستی، سیاسی، تدبر جمہوری اقدار اور روایات سے نابلند دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بات بھی نہایت افسوس اور جگ ہنسائی کی ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے دور میں ہی خواتین، اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے خلاف ناصرف غیر منصفانہ اور جمہوریت قانون سازی کی گئی ہے بلکہ سوشل سوسائٹی، ممتاز صحافیوں اور جمہوریت کی بحالی کے لئے ہمہ وقت کوشاں جلیل القدر اَدبا اور شُعرا کو بھی ناصرف پر تشدد رویوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں پابندِ سلاسل بھی کر دیا گیا۔ اسی دور میں مزاحمتی ادب نے عوامی حلقوں میں ناصرف خوب پذیرائی حاصل کی بلکہ نئی جہتیں بھی اختیار کیں۔

یہ بات بھی انتہائی غور طلب ہے کہ کلیت پسند نظریات (TOTAL ATARIANISM) پر یقین رکھنے والی چند نام نہاد مخفی جمہوری قوتیں ماضی قریب میں ایک دفعہ پھر کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اور کبھی برملا طور پر دوبارہ صدارتی نظام presidential System کی حمایت کرتی دکھائی دیں لیکن انتشار پسند اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش مند مخفی نام نہاد جمہوری قوتوں کو دوبارہ صدارتی نظام کے سلسلے میں عوامی تائید حاصل نہ ہو سکی اور اس سلسلے میں یہ قوتیں مکمل طور پر رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی ناکام رہیں نیز ان قوتوں کا ایک نیا صدارتی گھنٹہ گھر بنانے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے ماضی کے تلخ سیاسی تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دُھرایا جائے۔ لیکن اب وطن عزیز میں مقتدر حلقوں پر یہ بات صاف اور واضح ہو جانی چاہیے کہ 1973ء کا آئین ایک حقیقی پارلیمانی جمہوری آئین ہے جسے تمام سیاسی قوتوں بشمول حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں نے قانون ساز ادارے سے متفقہ طور پر منظور کروایا تھا۔

لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تمام سیاسی قوتیں صرف اور صرف پارلیمانی جمہوریت کی بقا کے لیے ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو کر باہمی اتحاد ویگانگت کا ثبوت دیں اور اہم قومی معاملات اور پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے سیاست میں شائستگی اور تحمل مزاجی کا ثبوت دیں۔ اور جمہوری سفر کو آگے بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

دراصل مستحکم سیاسی نظام ہی ملک میں معاشی استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اساتذہ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور روزگار کے مواقع مخدوش ہو گئے ہیں۔ اور بیرونی سرمایہ کاری کو متعدد اندرونی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ڈالر کی اڑان کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ شرح سود میں اضافہ مزید معاشی عدمِ استحکام پیدا کر رہا ہے۔ روپیہ اپنی قدر کھوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو کر آئین وقانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہوئے تمام سیاسی مسائل کا حل آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے تلاش کریں۔ چونکہ تاریخی اعتبار سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کی اساس ہی دراصل آئینی جدوجہد، جمہوری روایات اور قدروں پر رکھی گئی تھی۔

آئیں ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ پاکستان کو قائم ودائم رکھے اور وطنِ عزیز میں اتحاد اور یگانگت کا نیا سفر شروع ہو۔ چونکہ اب ملک مزید سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاست میں شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کیا جائے۔ یاد رہے افلاطون نے اپنی کتاب دی ریپبلک The Republic میں جس مثالی ریاست کا نقشہ کھینچا تھا وہ دراصل تمام تر اخلاقیات پر ہی مبنی تھی۔

لہٰذا سیاست دانوں سے اب یہ قوی اُمید ہے کہ وہ سیاست میں متحمل مزاجی، بُردباری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور خصوصاً جلسے اور جلوسوں میں غیر اخلاقی گفتگو جو ہماری معاشرتی اقدارکے بھی خلاف ہیں مکمل اجتناب کریں۔