کیا آزادی کے ثمرات ایسے ہوتے ہیں؟

کیا آزادی کے ثمرات ایسے ہوتے ہیں؟
پاکستان کی آزادی کا مہینہ پورے زور و شور سے رواں دواں ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں کرونا کی لہر ابھی بھی تباہی پھیلا رہی ہے مگر پاکستانی حکومت نے تو سب کچھ معمول کے مطابق کھولنےکا حکم دے دیا ہے کیوں کہ حکومت کے مطابق اب کرونا ملک سے تقریباً ختم ہو گیا ہے، اس لیے یوم جشن آزادی بھی ہر طرف بھرپور جوش و خروش سے منایا گیا۔ مگر میرے ذہن میں ہر بار ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

ہم جوش و خروش سے اگست کے مہینہ میں ہر سال آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے، ترانے گاتے ہوئے، خوشیاں مناتے ہیں۔ اگر تو آزادی اپنی مرضی سے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔ اگر تو آزادی اپنی مرضی سے سڑکوں پر آزادانہ گھومنے پھرنے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔ اگر تو آزادی بابائے قوم کے مزار پر جا کر ہڑبونگ مچانے اور باجے بجانے کا نام ہے تو ہم واقعی آزاد ہیں۔ اگر تو آزادی ڈنڈے کے زور پر اپنا نظریہ کسی کمزور پر تھوپنے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔ اور اگر آزادی محض ہر سال 14 اگست کو چھتوں اور سڑکوں پر جھنڈیاں لگانے، جھنڈے لہرانے، تقاریب منعقد کرنے یا نعرے لگانے سے ثابت ہوتی ہے تو اس دنیا میں شاید ہم سے زیادہ آزاد قوم کوئی نہ ہو۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے جسموں کی آزادی کو ہی حقیقی آزادی سمجھ لیا ہے جبکہ ذہنی طور پر ہم ابھی بھی غلام ہیں۔ ملک میں آج بھی ظلم و جبر کا دور دورہ ہے۔ کرپشن کے مجرم سرعام دندناتے پھر رہے ہیں اور جہاں بھی کرپٹ عناصر کا زور چلتا ہے وہ کرپشن کا بازار سرگرم کرنے سے باز نہیں آتے۔ غربت میں کمی ہونے کی بجائے دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حوا کی بیٹی سرعام لٹ رہی ہے، بچے اغوا ہو رہے ہیں اور ان سے زیادتی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، انتہا پسندی اور معاشرتی عدم برداشت اپنے عروج پر ہے۔ ہم اپنے ووٹ بیچ کر اپنے ضمیر بیچ رہے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں لے کر بیروزگار بیٹھے ہیں اور مجبوراً جرائم کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔ غریب اور  کمزور انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے جبکہ طاقتور قانون کو اپنی جیب میں لیے پھر رہا ہے۔

میری ذاتی رائے کے مطابق قائد نے پاکستان اس مقصد کے لیے تو ہرگز نہیں بنایا تھا اور نہ ہی آزادی کے یہ ثمرات ہوتے ہیں۔ وہ ایسا آزاد ملک تو ہرگز نہ چاہتے تھے جہاں اپنے ہی اپنوں کو نوچ رہے ہوں، جہاں اپنی ذاتی رنجش کے نتیجے میں جس کو مرضی غدار یا کافر قرار دے دیا جائے۔ بدقسمتی سے ہم ذہنی طور پر ابھی بھی غیرملکی آقاؤں کے غلام ہیں۔ جو قانون ہمیں وہ بنا کر دے گئے ہیں ہم اسی قانون سے بندھے بیٹھے ہیں اور اسی میں ترامیم کر کے اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ وہ خود تو بیوروکریسی میں افسر شاہی نظام ختم کر کے بیٹھ گئے مگر ہم ابھی تک اسی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پہلے ہم صرف گوروں کے غلام تھے اب ان کے ساتھ ساتھ ہندوانہ رسموں اور اپنوں کے غلام ہیں۔

آخر ہم حقیقی معنوں میں آزاد کیوں نہیں ہیں؟

میری رائے میں جب تک ہم اپنی جاہلیت کا خاتمہ نہیں کریں گے اس وقت تک شعور کی منزلیں طے نہیں کر سکتے اور شعور حاصل کیے بغیر ذہنی غلامی کا طوق نہیں اتارا جا سکتا۔ جب ہم احساس کمتری سے باہر نکلیں گے،غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے والے ہوں گے۔ جب ہم معاشرتی طور پر رواداری اور برداشت کو فروغ دینے والے بنیں گے۔ جب ہم ووٹ کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے کسی مامے، چاچے، دوست، چودھری یا وڈیرے کے کہنے پر دینے کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دیں گے تو تب ہی عملی طور پر آزاد تصور کیے جا سکیں گے۔

ان سب اقدامات کے بعد ممکن ہے کہ معاشرے میں بلا تفریق رنگ، نسل، عقیدہ، مذہب انصاف ممکن ہو سکے اور جب انصاف کا دور دورہ ہو گا تب ہی ہم آزاد قوم کہلا سکیں گے۔ ورنہ ہم نسل در نسل غلامی کا طوق ورثے میں منتقل کرنے والے بنتے رہیں گے اور رفتہ رفتہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔