کیا لاپتا ہونے والے انسان نہیں؟ ان کی بازیابی کیلئے احتجاج جرم کیوں؟

کیا لاپتا ہونے والے انسان نہیں؟ ان کی بازیابی کیلئے احتجاج جرم کیوں؟
کبھی کسی کو بلاوجہ کیوں اٹھا لیا جاتا ہے۔ اسے ایک اذیت نما کمرے میں بند کرکے جسمانی اور دماغی تشدد کیا جاتا ہے۔ اس کی خوراک کو کم کیا جاتا ہے۔ روشنی کو چھین لیا جاتا ہے۔ اس پر غلیظ زبان استمعال کیا جاتا ہے۔

میں نہیں جانتا شاید میری جاننے کی استطاعت یہ نہیں ہے اور یا یہ کہ میں اس مزاج سے نفرت کرتا ہوں۔ نفرت اس لیے شاید میری کہانیوں کی انبار میں اسے کہانی نہیں کہا جاتا یہ یا کہانی نہیں بلکہ سامراجی نقل ہے۔

سامراج کی نقل وہی اتارتے ہیں جنہیں لفظ سامراج سے دلی لگاؤ یا ان کی ثقافت، زبان اور وجود سے انکار ہو۔ لیکن جو آپ کی ثقافتی پگ باندھتے ہیں۔ آپ کے کلچر کو ملک کی امیر ثقافتوں میں شمار کرتے ہیں۔ آپ کے رقص اور گائیکی کو پسند کرتے ہیں۔ وہ تو آپ کے مداح ہوتے ہیں، انہیں آپ کو اپنانے میں کوئی دیر نہیں۔

مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ وہ آپ کی عالمی سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ آپ کی دنیا سے لاتعلقی کیوں کرتے ہیں۔ آپ کا علم ان کے لیے مشعلِ راہ اور ان کی تاریخ میں جگہ کیوں نہیں بناتا؟

آپ اس طرح خوار کیوں ہو۔ آپ اس طرح ذلالت کی گہرائیوں میں جانے کا کیوں محسوس کیوں کر رہے ہیں۔ آپ اپنی آزادی کا تصور کیوں نہیں کرتے۔ کیوں خود کو آزادی، ریاستی، سماجی اور معاشی غلام سمجھتے ہیں؟

مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ تمھاری آزادی اتنی محدود کیوں ہے؟ جینے کی آزادی، سوال کرنے کی آزادی، پڑھنے کی آزادی۔ آپ جس ملک کا شناخت ایک کارڈ کی صورت میں رکھتے ہو۔ پھر بھی آپ کی شناخت تاریخ کی مٹی میں صدائیں دے رہی ہے، چیخ رہی ہے کہ آپ کی شناخت خطرے میں ہے۔

آپ جب ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہو۔ عالم بننے کی کوشش کرتے ہو۔ اپنے قوم کو اندھیروں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہو۔ تو پھر بھی تم لاپتا کیے جاتے ہو، کیوں؟

ریاستی اور شہری آزادی سے آپ جب اپنے ساتھی طالب علموں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہو۔ سیاسی طریقے سے ریلی نکالتے ہو۔ گناہگار کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا چاہتے ہو۔ فیصلوں کو عدالتی اختیار میں لانا چاہتے ہو۔ اپنے ساتھیوں کو گوانتانا موبے سے نکال کر قانون کی گرفت اور انصاف کی روشنی میں کھڑا کرتے ہو۔

تو آپ کو جلسہ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ آپ کو مارا جاتا ہے۔ آپ کے خون سے زمین کو تر کیا جاتا ہے۔ آپ کے بدن کا خون سڑکوں پر بہا دیا جاتا ہے۔ آپ کو بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔

آپ کو قانونی طریقہِ کار سے جلسے کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اور یہ سب کچھ آپ پر ہی کیوں؟ یہ سب کچھ آپ پر استعمال کیا جاتا ہے اور بس آپ پر یہ ڈنڈے، یہ لاٹھی۔ آپ کو بھینس کیوں سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو مار کر کہا جاتا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بات ختم!

آپ کو مارنے والے کیوں قہقہہ لگاتے ہیں۔ کیا تم واقعی انسان نہیں، کیوں تمھیں مارنا حقیقتاً بھینس جیسے ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مارنے والے کا قہقہہ وحشیانہ ہے؟

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔