بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح خان گوگی عمران خان دور حکومت میں کتنی بااثر تھیں؟

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کی خاص سہیلی فرح خان جنہیں وہ اپنی بچی بھی کہتی ہیں، بھی وزیراعظم ہاؤس منتقل ہو گئیں اور خاتون اول کے اثر و رسوخ کے باعث وہ بھی پی ٹی آئی حکومت میں اہم کھلاڑی بن گئیں۔ یوں وزیراعظم ہاؤس میں ایک ایسا نیٹ ورک وجود میں آ گیا جس نے چار سال تک حکومتی فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ادا کیا۔

بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح خان گوگی عمران خان دور حکومت میں کتنی بااثر تھیں؟

کوئی بھی پکچر جو پردہ سکرین کی زینت بنتی ہے اسے یہاں تک لانے میں ڈھیر سارے لوگ مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اس میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں تو کچھ معاون کرداروں میں نظر آتے ہیں۔ کچھ ایکسٹراز بھی پلاٹ کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں پچھلے دس بارہ سالوں سے عمران خان نامی پکچر کھڑکی توڑ رش لیتی رہی ہے۔ اب جبکہ یہ پکچر سنیما ہالوں سے اتر چکی ہے تو حکام لٹھ لے کر اس کے کرداروں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ایسے میں مرکزی کرداروں کے علاوہ ایک معاون کردار بھی سپاٹ لائٹ میں آ چکا ہے۔ آج ہم اسی معاون کردار کی نفسیات اور کامرانیوں کا چرچا کریں گے۔ یہ ہیں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قریبی سہیلی فرح خان المعروف فرح گوگی جنہیں اس پکچر نے مالا مال کر دیا۔

فرح خان کا اصل نام فرحت شہزادی ہے۔ ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والی فرح خان 1995 میں اپنی بہن مسرت شہزادی کے ساتھ شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے لاہور آئی تھیں۔ لاہور آ کر انہوں نے گلبرگ کالج میں داخلہ لیا۔ انہوں نے فرنیچر کے ایک شو روم میں سیلز گرل کے طور پر کام شروع کیا اور بعد ازاں فورٹریس سٹیڈیم میں واقع ایک بوتیک کے فوٹو گرافر مالک سے دوستی ہونے کے بعد لاہور کے سماجی حلقوں میں نظر آنے لگیں۔ اسی دوران ان کی ملاقات احسن جمیل گجر سے ہو گئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ احسن جمیل گجر نے انہی دنوں میں گوجرانوالہ میں جی مگنولیا نامی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا آغاز کیا تھا اور فرح خان شوہر کے پراپرٹی بزنس کو دیکھنے لگیں۔

پاکپتن کی مانیکا فیملی کے ساتھ احسن جمیل گجر کی روحانی وابستگی تھی اور فرح خان کو انہوں نے ہی مانیکا فیملی کے ساتھ ملوایا تھا۔ اسی دوران فرح خان کی بشریٰ بی بی کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ 18 فروری 2018 کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی کی تقریب بھی لاہور میں فرح خان کے گھر میں ہوئی۔ شادی میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر انہوں نے عمران خان کا دل جیت لیا اور وہ عمران خان کی آنکھوں کا تارا بن گئیں۔ عمران خان نے یہ شادی خفیہ رکھی تھی اور جب شادی کی تصویریں سامنے آئیں تو فرح خان کا نام پہلی مرتبہ پاکستانی میڈیا کی سرخیوں میں آیا۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کی خاص سہیلی فرح خان جنہیں وہ اپنی بچی بھی کہتی ہیں، بھی وزیراعظم ہاؤس منتقل ہو گئیں اور خاتون اول کے اثر و رسوخ کے باعث وہ بھی پی ٹی آئی حکومت میں اہم کھلاڑی بن گئیں۔ یوں وزیراعظم ہاؤس میں ایک ایسا نیٹ ورک وجود میں آ گیا جس نے چار سال تک حکومتی فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ادا کیا۔

عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کیسے بنے؟

عمران خان نے اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب ایک نئے نویلے چہرے کو پنجاب میں شہباز شریف کے متبادل کے طور پر وزیراعلیٰ لگا دیا گیا۔ صحافی نعیم حنیف کے مطابق عثمان بزدار کی اہلیہ بھی فرح گوگی کی مانند بشریٰ بی بی کی عقیدت مند تھیں اور ان کی خاص مریدنیوں میں شامل تھیں۔ اسی کنکشن کے باعث احسن جمیل گجر اور عثمان بزدار پہلے کے واقف کار تھے۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ عمران خان نے نہیں بلکہ بشریٰ بی بی نے لگایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کی بیڈ گورننس پر پارٹی کے اندر اور باہر سے بھلے جتنی بھی لے دے ہوئی، عمران خان نے عدم اعتماد آنے تک بدستور انہیں ہی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رکھا۔

اگست 2018 میں بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا اور ان کے اہل خانہ کی گاڑی روکنے پر جب پاکپتن کے ڈی پی او رضوان گوندل کو تبدیل کرنے کا حکم جاری ہوا تو اطلاعات آئیں کہ فرح گوگی کے شوہر احسن جمیل گجر کے کہنے پر عثمان بزدار نے ڈی پی او کو تبدیل کیا تھا۔ یہ واقعہ وزیراعظم ہاؤس میں قائم اس نیٹ ورک کے ابتدائی دنوں کے خدوخال پر روشنی ڈالتا ہے۔

پنجاب میں ترقیاں اور تبادلے

کہا جاتا ہے کہ عثمان بزدار جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو صوبے میں ترقیوں، تبادلوں اور نئی تعیناتیوں کے ضمن میں رشوت کا بازار خوب گرم رہا اور اس سلسلے کی روح رواں فرح خان تھیں۔ سرکاری افسروں کے ساتھ معاملات طے کرنے، پیسوں کا مک مکا کرنے اور رقم وصول کرنے کا معاملہ مبینہ طور پر فرح خان ہی کے سپرد تھا۔ علاوہ ازیں پنجاب میں منافع بخش عہدوں پر انہوں نے اپنے کئی دوستوں کو تعینات کروایا۔ ایکسپریس ٹربیون پر صحافی محمد شہزاد کی خبر کے مطابق 2020-21 میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید کے خلاف نیب نے انکوائری شروع کی تو فرح شہزادی کا گروپ سرخیوں میں آ گیا۔ اس انکوائری کے نتیجے میں طاہر خورشید کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔

عثمان بزدار کی کابینہ میں سینیئر وزیر رہنے والے عبدالعلیم خان نے تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کروڑوں روپے رشوت دے کر اپنی پوسٹنگ کرواتے رہے اور مبینہ طور پر فرح خان اس معاملے کی سربراہ تھیں۔ جنرل عاصم منیر جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو پنجاب میں چلنے والے اسی گھن چکر کی اطلاع عمران خان کو دینے پر انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

پنجاب کیٹل مارکیٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی

سینیئر صحافی اور ماضی میں عمران خان کے بہت قریب سمجھے جانے والے مبشر لقمان کی ایک خبر کے مطابق 2020-21 کے دوران فرح خان اور حکومت میں ان کے ساتھیوں نے مل کر پنجاب کیٹل مارکیٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی (PCMDC) بنائی جس میں فرح خان کے قریبی دوستوں کو اہم عہدے دیے گئے۔ اس کے بعد پنجاب میں 9 مویشی منڈیاں بنائی گئیں اور ان کے لئے ٹینڈر جاری کئے گئے۔ مویشی منڈیوں کا ٹھیکہ ملنے کے بعد ہر ٹھیکیدار نے معاہدے کے مطابق بڑی منڈی کے لئے ایک سے 2 کروڑ جبکہ چھوٹی منڈی کے لئے 20 سے 30 لاکھ روپے رشوت کی صورت میں اس گروپ کو ادا کئے۔ ان وصولیوں کے لئے فرح خان نے اپنی دوست صالحہ سعید کو ڈی جی ایکسائز جبکہ کوثر خان کو ڈی جی لوکل گورنمنٹ تعینات کروا رکھا تھا۔

تعمیراتی منصوبوں میں اربوں کمائے

مبشر لقمان بتاتے ہیں کہ فرح شہزادی کے لاہور سے تعلق رکھنے والے شیخ برادری کے ایک مشہور بلڈر کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ شیخ صاحب کی کمپنی فرح شہزادی کے اثر و رسوخ کے ذریعے سرکاری منصوبے، تعمیراتی ٹھیکے حاصل کرتی رہی اور رشوت کی رقم کے طور پر کچھ شیئرز فرح گوگی کو ادا کرتی رہی۔

فرح خان کا گروپ جب منظرعام پر آنے لگا تو کرپشن کا طریقہ واردات بدل دیا گیا۔ انہوں نے نقد رقم کی جگہ ہیرے، گھڑیاں، پینٹنگز اور دیگر مہنگے تحفے وصول کرنے شروع کر دیے۔ متحدہ عرب امارات میں لے جا کر یہ تحفے 5 فیصد کٹوتی کے بعد امریکی ڈالروں میں تبدیل کروا لیے جاتے تھے۔ لنک انٹرنیشنل ایکسچینج کے شیخ نیر اور ڈی ایچ اے کے خواجہ عارف نے فرح خان گروپ کو حوالہ، ہُنڈی اور دیگر ذرائع سے منی لانڈرنگ میں سہولت فراہم کئے رکھی۔

فرح خان نے پی ٹی آئی دور حکومت میں غوثیہ بلڈرز کے نام سے اپنی تعمیراتی کمپنی بنا لی جس نے حکومت سے کئی تعمیراتی ٹھیکے حاصل کیے۔ ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری عطاء چودھری نے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہوئے فرح خان اور احسن جمیل گجر کو ڈی ایچ اے اسلام آباد میں بھی تعمیراتی منصوبے لے کر دیے۔

کمپنیوں میں شیئرز

جیو نیوز پر تحقیقاتی صحافی فخر درانی کی ایک خبر کے مطابق عمران خان کا دور حکومت ختم ہوا تو فرح خان 9 کمپنیوں سے وابستہ ہو چکی تھیں جن میں سے بعض ان کی ملکیت میں ہیں اور بعض میں وہ شیئر ہولڈر ہیں۔ مزمل سہروردی کے مطابق خاتون اول بشریٰ بی بی بھی فرح خان کی کچھ کمپنیوں میں ڈائریکٹر ہیں۔

ملک ریاض سے تعلقات اور ہیروں کے تحفے

مبشر لقمان کے مطابق فرح شہزادی ملک ریاض کے فرنٹ مین اعظم بھٹی کو اراضی کے حصول میں سہولتیں فراہم کرتی رہیں اور اپنا حصہ وصول پاتی رہیں۔ ملک ریاض اور ان کی بیٹی امبر کی لیک ہونے والی فون کال میں سنا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی کے لئے فرح گوگی نے ملک ریاض سے 5 قیراط کے ہیرے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ملک ریاض نے انہیں 3 قیراط کا ہیرا بھیجا تھا جو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔

القادر ٹرسٹ کے لئے اراضی کا حصول

سماء ٹی وی پر سہیل رشید کی خبر کے مطابق عمران خان نے اپنے دور حکومت میں روحانیت کی تعلیم دینے کے لئے القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا اور اس کے لئے القادر ٹرسٹ بنایا گیا۔ ٹرسٹ کے لئے مبینہ طور پر ملک ریاض کی مدد سے 450 کنال اراضی حاصل کی گئی اور اس ٹرسٹ کے تین بینیفشری بنے؛ عمران خان، بشریٰ بی بی اور فرح خان۔

ریئل سٹیٹ پروجیکٹس

مبشر لقمان کے مطابق چکری روڈ اسلام آباد کے قریب تقریباً تین ہزار کنال زرعی زمین خریدی گئی اور خریدنے کے بعد اسے کمرشل کروا لیا گیا جس سے اس اراضی کی ملکیت میں چار سے پانچ ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ اسی طرح فیروز پور روڈ لاہور کے نزدیک ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لئے زرعی اراضی حاصل کی گئی۔ اس زرعی اراضی کو ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین میں تبدیل کر کے 100 ارب روپے بٹورنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ عمران خان کے دور حکومت ہی میں احسن جمیل گجر نے گوجرانوالہ میں اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی جی میگنولیا کے لئے 4 سے 5 ارب روپے مالیت کی 300 ایکڑ اراضی بھی خریدی۔

دبئی میں لگژری فلیٹس کا منصوبہ

مبشر لقمان کا مزید کہنا ہے کہ کہ پام جمیرا دبئی میں فرح خان کے لگژری فلیٹس کی تعمیر جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق نصف سے زیادہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے۔

فیصل آباد اکنامک زون میں سستے داموں پلاٹ کا حصول

مبشر لقمان کے مطابق فرح گوگی نے فیصل آباد سپیشل اکنامک زون میں 8 کروڑ 30 لاکھ روپے کا صنعتی پلاٹ سستے داموں خریدا جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 60 کروڑ روپے تھی۔ فرح گوگی، ان کی والدہ بشریٰ خان اور ان کے شوہر احسن جمیل گجر اس ڈیل میں ملوث ہیں۔

ایمنسٹی سکیم سے کروڑوں کا فائدہ

صحافی فخر درانی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ فرح خان نے مئی 2019 میں ایمنسٹی سکیم کے تحت 33 کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا۔ تاہم احسن جمیل گجر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایمنسٹی سکیم کے تحت یہ فائدہ وزیراعظم شاہان خاقان عباسی کے دور میں حاصل کیا تھا، عمران خان کے دور میں کوئی ٹیکس معاف نہیں کروایا۔

توشہ خانہ کے تحائف بیچنے کا معاملہ

نومبر 2022 میں شاہزیب خانزادہ نے خبر دی کہ عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے تحفے میں دی گئی ایک مہنگی گھڑی فرح خان کے ذریعے سے دبئی میں مقیم کاروباری شخصیت عمر فاروق کو 20 لاکھ ڈالر میں فروخت کی گئی جس کی مالیت 2019 میں تقریباً 28 کروڑ روپے تھی۔ مارچ 2019 میں سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر نے عمر فاروق سے رابطہ کیا اور اپریل 2019 میں فرح خان نے دبئی میں ان سے ملاقات کی۔ فرح خان کے اصرار پر عمر فاروق نے 20 لاکھ ڈالر نقدی کی صورت میں ادا کیے۔ عمر فاروق ظہور نے پروگرام میں عمران خان کو تحفے میں ملنے والی گھڑی بھی دکھائی جو ان کے پاس موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک ریاض کے خصوصی طیارے میں یہ رقم تھیلوں میں بھر کر فرح خان بنی گالہ لے کر آئیں اور عمران خان کے حوالے کی۔

موضع گھنک میں ترقیاتی کام

اردو پوائنٹ پر لاکھوں کی تعداد میں دیکھی جانے والی ایک یوٹیوب ویڈیو میں فرح گوگی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان کی شان میں قصیدے کہتے ہیں۔ ضلع شیخوپورہ کے موضع گھنک میں عمران خان کے دور حکومت میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے گئے جن میں سڑکیں، لنگرخانہ، پولیس چوکی، گزلز ہائی سکول اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ موضع گھنک فرح خان کا آبائی گاؤں ہے اور انہی کے اثرورسوخ کی وجہ سے گاؤں میں ترقیاتی کام ہوئے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں پچھلے 50 سال سے اتنے ترقیاتی کام نہیں کروائے گئے جتنے ان ساڑھے تین سالوں میں کروائے گئے ہیں۔ ناقدین موضع گھنک کی کایا کلپ میں فرح خان کی مالی کرپشن کے نشان دیکھتے ہیں۔

جمہوریہ وینو آ تو کا پاسپورٹ اور نجی طیاروں پر بیرونی دورے

فرح خان نے 2018 سے 2022 تک خلیجی ممالک کے کئی دورے کئے اور ان دوروں کے لئے نجی طیارے استعمال کیے۔ فرح کے پاس جمہوریہ وینو آ تو کا پاسپورٹ بھی موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پاسپورٹ انہیں اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال کی دبئی میں قائم کمپنی نے فراہم کیا اور مبینہ طور پر اس کی فیس ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض نے ادا کی تھی۔

ملک سے فرار

اپریل 2022 میں جونہی عمران خان کی حکومت ختم ہوئی، فرح خان ملک چھوڑ گئیں۔ ان کے شوہر پہلے ہی ملک سے باہر تھے۔ قومی احتساب بیورو نے فرح خان اور ان کے شوہر کے خلاف انکوائری شروع کی اور تفصیلات بتائیں کہ فرح خان کے اکاؤنٹ میں گزشتہ تین برسوں کے دوران 84 کروڑ 70 لاکھ روپے جمع کروائے گئے جو ان کے معلوم شدہ آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ رقم ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی اور جمع کروانے کے فوراً بعد اسے نکال لیا گیا۔

2018 سے قبل فرح خان کے اثاثے 5 کروڑ روپے مالیت کے تھے جبکہ عمران خان کے دور حکومت کے بعد یہ اثاثے 98 کروڑ روپے کے ہو گئے۔ عوامی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فرح خان عمران خان اور بشریٰ بی بی کے لئے فرنٹ وومن کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ قومی احتساب بیورو اسی کنکشن کا کھوج لگانے میں جتا ہوا ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ فرح خان کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کر کے انہیں پاکستان لا کر ان کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔