راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ منصوبہ: 'حکومت لالچی رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے'

راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ منصوبہ: 'حکومت لالچی رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے'
میں چھے بچوں کا واحد سہارا بیوہ ماں ہوں۔ اور ایک چار مرلے کے دیہی گھر میں رہ رہی ہوں۔ مجھے چند روز قبل ہی ڈپٹی کمشنر لاہور کا نوٹس ملا ہے جس میں کہا گیا ہے میں اپنا گھر خالی کردوں کیوںکہ میرے گھر کی زمین راوی کے گرد نیا شہر بسانے کے منصوبے کے لیئے درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نوٹس تو مجھے اچانک ملا ہے لیکن محکمہ پٹوار سے تو روز ہی لوگ آکر ہم پر گھر خالی کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ہم پر بے حد دباؤ ہے۔ لیکن اگر ہمیں یہ گھر چھوڑنا پڑا تو یہ ہمارے لیئے انتہائی تباہ کن ہوگا۔ ہمیں جو پیسے دیئے جا رہے ہیں اس سے تو میرے بچوں کے سر پر چھت بھی نہیں ڈل سکتی، سکولوں کی فیسیں ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔

یہ  راوی لاہور کے کنارے آباد مسلم لیگ گاؤں کی رہائشی رخسانہ ہے۔ جسے اپنے گاؤں کے ہزاروں رہائشیوں کی طرح اپنے اور اپنے بچوں کے معاشی  نستقبل کی فکر لاحق ہے۔ نہ صرف اسکا گاؤں بلکہ اس سے ملحقہ درجنوں دیہاتوں کے باسیوں کو اس وقت ایک سی فکر کھائے جا رہی ہے کہ انکے اور انکے خاندان کسی بھی وقت بے گھر ہو سکتے ہیں۔ 

اور اسکی وجہ ہے 6 کھرب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا  پنجاب حکومت کا راوی روورفرنٹ اربن ڈیویلپنٹ پراجیکٹ ہے جسے وزیر اعظم پاکستان کی براہ راست نگرانی اور اشیر باد حاصل ہے جبکہ  فوجی تعمیراتی محکمے ایف ڈبلیو او بھی اس میں براہ راست شریک ہے۔

بقول حکومت اور پراجیکٹ انتظامیہ (راشد عزیز چیئرمین پراجیکٹ)  یہ منصوبہ شہر لاہور کی تقدیر بدل دے گا۔ منصوبے سے تقریباً دولاکھ چالیس ہزار تعمیراتی شعبے کی براہ راست نوکریاں پیدا ہوں گی جبکہ  لاکھوں بلواسطہ نوکریاں حاصل ہوں گی۔ یہ منوبہ تیس سالوں میں دس سال کے حساب سے تین فیزز میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد کو سہولت فراہم کرے گا جبکہ اس کا رقبہ ایک لاکھ دو ہزار چہتر ایکڑ پر محیط ہوگا۔  پہلے فیز میں 46 ایکڑ طویل جھیل ہوگی جو کہ بھارت کی جانب سے سیلابی پانی کے سد باب کے لیئے استعمال ہوگی جبکہ یہ راوی کے واٹر ٹیبل (زیر زمین پانی کی سطح) کو بھی بہتر کرے گی۔ ساتھ ہی ساتھ پہلے فیز میں ہی ایک ویسٹ واٹر منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس شہر کے کل بارہ زونز ہوں گے۔ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر مبنی ہوگا۔ جہاں یہ انسانوں کی زندگی میں بہتر بدلاؤ لائے گا تو وہیں لاہور کے پہلے سے ہی ابتر ماحول پر بہتر اثر ڈالے گا۔ 

تاہم  ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق حکومت کے اس منصوبے کے تمام حصوں میں ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان اور منصوبے کی اراضی میں بسنے والے کسانوں اور بے گھر شہریوں کی دوبارہ آبادکاری اور ذرائع آمدن کے دوبارہ پیدا کرنے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی انتظام  نہیں ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق گو کہ حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ اس منصوبے سے کوئی بھی بے گھر نہیں ہورہا۔ کیونکہ لوگوں کے گھر تو اس نئے شہر میں آجائیں گے اور انکے گھروں کو نہیں گرایا جائے گا۔ نہ ہی یہ کہ کسانوں کو معاوضہ نہیں مل رہا انہیں ان کی زرعی اراضی کے مطابق رقم دی جائے گی۔

تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ قبضے تو ابھی سے شروع ہو چکے ہیں۔ ہزاروں ایکٹر اراضی کو حاصل کرنے کے لیئے ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے عمل شروع کیا گیا ہے۔ مقامی کسانوں کے مطابق  حکومت نے انہیں ڈرانے کے لیے پولیس کے ہزاروں اہلکار انکی اراضیوں کے آس پاس تعینات کر دیئے ہیں اور انکو دھوکہ دینے کے لیئے منصوبے پر اعتراضات جمع کرانے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں دیا جا رہا۔

حتیٰ کہ ایک مصالحتی بیٹھک میں تو ڈپٹی کمشنر پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر مقامی افراد کو مقامی بنا کر ہیش کیا تا کہ اوپر رپورٹ دی جا سکے کہ متاثرہ کسان اور رہائشی اپنی زمینیں حکومت کی مجوزہ شرائط پر دینے کے لیئے راضی ہیں۔  راوی کے اطراف بسنے والے کسانوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی چھت بچانے کے لیئے ہر ممکن مزاحمت کریں گے۔

ایچ آر سی پی کے زمینی حقائق جاننے کے حوالے سے جائے وقوع کا دورہ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایف ڈبلیو او کی جانب سے علاقے خالی کرانے کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں دو کسان اپنی زمینیں کھو چکے ہیں۔ مبینہ طور پر مزاحمت کی صورت میں مقامی رہائشیوں اور زمین مالکان کو سخت اقدامات کی دھمکی دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ معاوضہ صرف انکو ملے گا جن کی املاک دریا کے تلے river bed میں آئیں گے۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایسے افراد اور آبادیاں جو کہ river bed سے کافی دور ہیں انکو بھی املاک خالی کرنے کے نوٹسز دیئے جا چکے ہیں۔

عدالتی مداخلت پر ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کے لئے مرتب شدہ EIA رپورٹ اس منصوبے کو کچھ یوں بیان کرتی ہے۔

منصوبے کے زیر علاقہ میں 116 جنگلی حیات اور 147 پودوں کی نسلوں کے ہونے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے۔ مںصوبے کو 1400 کیوسک پانی چاہیے ہوگا۔ جس کا 70 فیصد زیر زمین پانی جبکہ باقی سیوریج پانی کو دوبارہ استعمال میں لا کر پورا ہوگا۔ منصوبے میں آنے والی زمین کا ستر فیصد زرعی زمین پر مشتمل ہے جو کہ 76000 ایکٹر بنتا ہے۔ باقی ماندہ رہائشی زمین، باغات اور لینڈ فل سائٹس اور دیگر پر مشتمل ہوگا۔ 12 ہزار سے زائد رقبہ گرین ایئریا کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔  جبکہ اس منصوبے میں کل 89 رہائشی علاقے ہیں جن میں سے 20 لاہور اور 69 شیخوپورہ میں آتے ہیں۔ 

رپورٹ میں زیر زمین پانی کے مزید آلودہ ہونے اور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے تاہم اس منصوبے کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ میں نشاندہی کردہ مسائل اور مجوزہ حل کے نفاذ سے اس کے قابل عمل ہونے کے امر کو مشروط کیا گیا ہے۔

ایچ آر سی پی رپورٹ کے مطابق حکومتی EIA رپورٹ میں بہت سے ایسے نقائص ہیں جنہیں چھوڑا گیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اس منصوبے کے معاشی و معاشرتی منفی اثرات ہیں جو کہ اس وقت ا منصوبے کی جگہ پر رہنے والے رہائشیوں پر مرتب ہوں گے۔ ان اثرات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایے کسان اور رہائشی جن کی زرعی زمینیں اور چھتیں  حکومت لے لے گی انکو بدلے میں کیا ملے گا؟۔ اس منصوبے میں کس قسم کی تعمیرات ہوں گی؟ اور کیا میٹریل استعمال ہوگا؟  راوی کے کنارے پر بسنے والے جن کی زمینیں دریا کے راستے میں نہیں ان کی زمینیں بھی حاصل کی جا رہی ہیں ان کو کیا بدلہ ملے گا؟۔ جبکہ اس منصوبے کے آبی حصے سے مغلیہ دور کی تعمیرات جن میں مقبرہ جہانگیر اور کامران کی بارہ دری سمیت دیگر عمارات شامل ہیں انکو خطرہ ہے جس کا کچھ خاص ذکر نہیں ہے۔ riverbed کے حوالے سے ایچ آر سی ہی نے کہا ہے کہ EIA رپورٹ کے مطابق riverbed  میں تو کل 9 آبادیاں ہیں جن میں دو شیخوپورہ اور سات لاہور میں ہیں باقی 80  کے بارے میں کیا ہوگا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔

ایچ آر سی پی نے لکھا کہ پنجاب حکومت بجائے اس کے کہ وہ لاہور کی آب و ہوا اور ماحولیاتی بگاڑ کو درست کرتی اسنے نئے منصوبے کے ذریعے عوام کی توجہ دوسری جانب مبذول کرادی ہے۔ رپورٹ نے بحث سمیٹنتے ہوئے لکھا کہ حکومت غریبوں کے لیئے سستی رہائش کبھی بھی فراہم نہیں کرے گی۔ بلکہ وہ تو انکی زمینوں پر پرائیویٹ ڈیویلپرز کے ساتھ مل کر اشرافئیہ کے لیے تعمیراتی منصوبے تعمیر کرنے کے منصوبے میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے کسانوں اور رہائشیوں کو طاقت کے زور پر دھونس اور زبردستی سے انکے ملکیتی حقوق سے بے دخل کرنے واسطے فوج کے زیر انتظام چلنے والے تعمیراتی ادارے ایف ڈبلیو او اور پولیس کی بھاری نفری کو زمین حاصل کرنے کے عمل میں شامل کیا ہے جو کہ مقامی آبادی کو ہراساں کرکے یہ عمل کر رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہےکہ میڈیا اپنا کردار نبھانے کے حوالے سے ناکام رہا۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ فوری طور پر اس علاقے میں ہر طرح کی تعمیرات کو بند کیا جائے۔ اور کسی مزید قابل ادارے سے EIA رپورٹ تیار کروائی جائے جس میں کسانوں کی نمائندہ پارٹی سے اسکے رائے کو بھی شامل کیا جائے جبکہ انکے خاطر خواہ معاوضے کے معاملات بھی دو طرفہ رائے سے طے ہوں

رپورٹ میں وزیر اعظم عمران خان کو انکے 2013 میں کہے گئے الفاظ یاد کرائے گئے ہیں جب انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو مارگلہ ہلز کے آرپار  انکے مجوزہ نیو اسلام آباد سٹی منصوبے پر  کہا تھا کہ نیو اسلام آباد سٹی کی تعمیر کا مطلب ہے کہ حکومت دراصل لالچی ٹھیکیداروں کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔