وزیر افضل ۔۔۔ ایک عہد تمام ہوا

وزیر افضل ۔۔۔ ایک عہد تمام ہوا
وزیر افضل بڑے بھائی کی کھیلوں کی دکان پر بیٹھتے تو وہاں پڑے ہوئے سرود میں کمال مہارت سے بجاتے، دھنیں ایسی چھیڑتے کہ راہ گیر رک کر داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ 1934 میں پیٹالہ میں جنم لینے والے وزیر افضل کا خاندان تقسیم ہند کے بعد جب پاکستانی شہر لاہور آ کر آباد ہوا تو وزیر افضل کا شوق کم نہیں ہوا۔ اسی جنون کی خاطر کراچی ریڈیو سٹیشن کا رخ کیا۔ جہاں وہ بطور سازندے کے اپنی خدمات انجام دینے لگے لیکن اُن کا بہت جلد دل بھر گیا۔ جبھی ملازمت چھوڑ چھاڑ کر واپس لاہور کے مقامی ہوٹل میں سرود بجا کر لوگوں کو متاثر کرنے میں لگے رہے۔

قسمت نے اُس وقت پلٹا کھایا جب ایک دن ماسٹر غلام حیدر نے اُن کا یہ فن دیکھا اور مشورہ دیا کہ وہ سرود کے بجائے مینڈولین کا استعمال کریں۔ جس میں انہوں نے انتہائی کم عرصے میں مہارت حاصل کی۔ جبھی موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے انہیں اپنا معاون رکھ لیا۔ جن کے ساتھ رہتے ہوئے اُن کا فن اور نکھر گیا۔ اسی دوران 1955 میں جب ’قاتل‘ کی موسیقی کا اعزاز ماسٹر عنایت حسین کو ملا تو انہوں نے فلم کے مشہور گیت ’او مینا نجانے کیا ہو گیا‘ میں وزیر افضل کی معاونت حاصل کی اور ایسا گیت تخلیق کیا جو آج تک ذہنوں سے فراموش نہیں کیا جا سکا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ دراصل وزیر افضل دو موسیقاروں کی جوڑی تھی۔ وزیر علی اور افضل، جو مل کر مختلف دھنیں ترتیب دیتے تھے۔ وزیر علی جہاں مینڈولن خوب بجاتے تو وہیں افضل وائلن، جبھی انہیں ہر موسیقار  اپنی فلموں میں شامل کرتے رہتے۔ دونوں مل کر ایک سے بڑھ کر ایک دھنیں بناتے۔ دھیرے دھیرے مقبول ہونے لگے لیکن پھر جوڑی بکھر گئی۔

جوڑی ٹوٹنے کے باوجود وزیر علی ’ وزیر افضل‘ کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔ جنہیں پہلی مرتبہ 1963 میں ’چاچا خوامخوہ‘ کی موسیقی تن تنہا مرتب دینے کا موقع ملا۔ جس میں ان کا گانا عنایت حسین بھٹی اور منیر حسین کی آواز میں ’ایتھے وگدے نیں راوی تے‘ خاصا مقبول ہوا۔ دو سال بعد ’زمین‘ میں گلوکار مہدی حسن کا ’شکوہ نہ کر، گلہ نہ کر، یہ دنیا ہے پیارے‘ اپنے دور کا مقبول گیت بن گیا۔ جس کے بعد وزیر افضل کے عروج کا دور شروع ہوا۔

1967 میں فلم ’دل دا جانی‘ میں ملکہ ترنم نور جہاں نے ڈوب کر جس گیت کو گایا وہ ’سیونی میرے دل دا جانی‘ رہا۔ جب کہ اسی فلم کے دیگر گانوں نے بھی شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ کریئر کے دوران انہوں نے 37 فلموں کے لئے لگ بھگ 209 گانے تخلیق کیے۔ وزیر افضل نے تمام بڑے گلوکاروں کی خدمات حاصل کیں، چاہے وہ مہدی حسن ہوں، ملکہ ترنم نور جہاں، مسعود رانا یا پھر ناہید اختر۔ ہر گانا پہلے سے بہترین اور جل ترنگ سے بھرا۔ یہ بھی کیا بدقسمتی ہے کہ موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے وزیر افضل کو 80 کی دہائی تک بیشتر فلم ساز اور ہدایتکار ذہنوں سے فراموش کر بیٹھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=k1MSUIGk4dc

وزیر افضل نے فلمی دنیا سے مایوس ہو کر ٹیلی وژن پروگراموں کے لئے گانے بنانا شروع کیے تو یہاں بھی وہ ہر ایک پر سبقت لے گئے۔ مسرت نذیر کا مشہور زمانہ ’لونگ گواچا‘ کی موسیقی دراصل وزیر افضل نے ہی ترتیب دی تھی۔ ٹی وی سے میوزیکل پروگرامز بند ہونے لگے تو کسی کو یاد نہیں رہا کہ ایک عظیم موسیقار وزیر افضل بھی ہیں۔ درحقیقت یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وزیر افضل پاکستانی فلمی صنعت کے آخری  باکمال اور غیر معمولی موسیقار تھے، جو زندگی کی بازی ہار بیٹھے لیکن رہتی دنیا تک ان کی دھنیں کانوں میں رس گھولتی رہیں گی۔