پاکستان میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور غیر سنجیدہ وزارت ماحولیات

پاکستان میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور غیر سنجیدہ وزارت ماحولیات
دنیا بھر میں بدترین فضائی آلودگی کے شکار شہروں میں اس وقت لاہور سرِ فہرست ہے اور گذشتہ کئی دنوں سے یہی صورتحال جاری ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں شاید ہی دن کا کوئی وقت ایسا رہا ہو کہ جب لاہور کا Air Quality Index 250 سے نیچے آیا ہو جب کہ یہ 100 سے اوپر چلا جائے تو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لاہور میں فضائی آلودگی کی وجہ smog ہے جو دراصل دھوئیں اور فضا میں موجود نمی کا ایک مکسچر ہے۔

اکتوبر اور نومبر کے مہینے پچھلے کئی برس سے لاہوریوں کے لئے یہ مصیبت ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اس بدلتے موسم میں بارش اور تیز ہوا کا مکمل فقدان ہوتا ہے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں اسی نسبت سے اس موسم کو خشکا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک بارش کے کوئی آثار موجود نہیں ہوتے۔

دوسری جانب سڑکوں پر چلتی گاڑیوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں فضا میں موجود اوس کے ساتھ مل کر شہریوں کی زندگیاں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ خریف کی فصلوں کی کٹائی بھی انہی مہینوں میں کاٹی جاتی ہے اور اس کے بعد ربیع کی فصلیں بونے کے لئے زمین ہموار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہمسایہ ہندوستان میں اس مقصد کے لئے کسانوں کی جانب سے فصلوں کو جلانا ایک روایتی طریقہ کار ہے۔ اس سے بہت سا دھواں فضا میں مزید شامل ہوتا ہے اور یہ سب مل کر فضا کو اس قدر مکدر کر دیتے ہیں کہ سانس لینا تک مشکل ہو جاتا ہے۔

فضائی آلودگی کے خلاف ایک ماحولیاتی کارکن اور وکیل احمد رافع عالم کے مطابق یہ مسئلہ لاہور یا پاکستان کے اندر کسی مخصوص علاقے کا نہیں بلکہ پورے شمالی برصغیر کا ہے اور بنگال تک تقریباً یہی عالم ہے۔ ان کا کہنا ہے پاکستانی شہروں میں فضا انتہائی آلودہ ہے اور یہ اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ یہ انسانی جانوں کے لئے خطرے کا باعث بن رہی ہے۔ ان کے الفاظ میں یہ ایک 'پبلک ہیلتھ ایمرجنسی' کی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی فضائی آلودگی کم بری یا زیادہ بری نہیں ہوتی کیونکہ فضائی آلودگی کبھی بھی اچھی نہیں ہو سکتی۔ یہ آپ کی زندگی کا دورانیہ کم ہی کر سکتی ہے، بڑھا نہیں سکتی، یہ آپ کے پھیپھڑوں کو خراب ہی کر سکتی ہے، یہ آپ کے بچوں کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں پر منفی اثر ہی ڈال سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین اور عمر رسیدہ افراد کے لئے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کو بہتر کیا جانا لازمی ہے لیکن اس کے لئے کیا اقدامات لیے جا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو عام آدمی کے لئے ضروری یہ ہے کہ وہ اپنی حفاظت اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کے لئے اپنی سطح پر جو کچھ کر سکتا ہے، وہ کرے۔ ہمیں گھروں میں ہوا کو صاف کرنے والے آلات کے اوپر رقم خرچ کرنا ہوگی کیونکہ یہ رقم انسانی صحت سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی۔ یوں تو کورونا وائرس نے ماسک پہننے کی عادت ہمیں ڈال ہی دی ہے، عام حالات میں بھی اور اس وائرس کے ختم ہو جانے کے بعد بھی ہمیں فضا کے آلودہ ہونے کی صورت میں ماسک پہن کر سڑکوں پر نکلنا ہوگا کیونکہ ماہرین کے مطابق محض ماسک پہن لینا بھی فضائی آلودگی سے لگنے والی بہت سی بیماریوں کا حل ہو سکتا ہے۔ ان میں دمے اور کھانسی کے دورے، نزلہ، زکام اور آنکھوں سے پانی بہنا بھی شامل ہے۔ ماسک پہننے سے ان سب سے بچا جا سکتا ہے۔

تاہم، یہ چند اشخاص اور محض گھروں میں رہنے کا معاملہ نہیں ہے۔ انسان کو گھر سے نکلنا ہے اور ماسک بھلے پہن لیا جائے، جس قسم کی فضا شہر میں موجود ہے، آخر کب تک انفرادی سطح پر لیے گئے اقدامات ہی کافی ثابت ہوں گے؟ حکومتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی توجہ بالکل مختلف اور اس مشکل کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیر اہم معاملات کی طرف ہے۔

احمد رافع عالم کا ماننا ہے کہ ہم ایک بڑھتی ہوئی معیشت ہیں اور ہم نے ترقی کا جو راستہ اپنایا ہے وہ فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حیاتیاتی ایندھن کا استعمال کم کرنا ہوگا، کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں پر انحصار گھٹانا ہوگا، ہمیں اپنے کوڑے اور فصلوں کو جلانا بند کرنا ہوگا، ہمیں اپنے شہروں میں تعمیراتی منصوبوں کو مختلف انداز میں چلانا ہوگا، تاکہ اس سے اٹھنے والی مٹی ہماری فضا کو آلودہ نہ کرے۔ اس حوالے سے گذشتہ دورِ حکومت میں بنے پل، میٹرو بسیں تنقید کا ہدف رہی ہیں۔

تاہم، ایسا نہیں ہے کہ یہ اقدامات لینا ناممکن ہو۔ دنیا کے بہت سے ایسے شہر ہیں جنہوں نے فضائی آلودگی کو بہت برداشت کیا ہے لیکن پھر انہوں نے اس پر قابو پانے کے ذرائع بھی تلاش کیے ہیں اور آج یہ اس بیماریوں کی جڑ سے بڑی حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔ لندن، نیویارک، لاس اینجلس، سٹاک ہوم، کوپن ہیگن، بیجنگ، شنگھائی سمیت درجنوں ایسے شہر ہیں جہاں عوام نے اپنی حکومتوں کو فضائی آلودگی کا مسئلہ حل کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں بھی اپنی حکومتوں کو اب مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات لینے کی کوشش کریں۔

لیکن ہماری حکومتوں کا حال یہ ہے کہ ماضی میں وزیرِ انسانی حقوق اسے سیاسی مقصد کی خاطر استعمال کرتی رہی ہیں جب وہ کہتی تھیں کہ بھارت میں جلائی جانے والی فصلوں کی وجہ سے لاہور میں سموگ ہے اور وہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھارت سے دوستی کا طعنہ دیا کرتی تھیں۔
سابق دور میں وزیرِ ماحولیات مشاہد اللہ خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے لیکن اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں ماحولیات کی الف ب سے بھی آگاہی نہیں تھی اور ان کی حکومت کی جانب سے ان کو یہ قلمدان دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مسئلے کو غیر سنجیدگی سے لیا جاتا رہا۔

غیر سنجیدہ وزارت ماحولیات کی ایک اور مثال پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر ماحولیات باؤ محمد رضوان کا حالیہ بیان ہے جنہوں نے تمام ملکی و غیر ملکی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کر ڈالا کہ لاہور سمیت پنجاب میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی سموگ نہیں ہوئی۔ نجی ٹی وی چینل سٹی فورٹی ٹو کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر تحفظ ماحولیات باؤ محمد رضوان نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ دو سال سے لاہور سمیت پنجاب بھر میں سموگ نہیں ہوئی، اس بات سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

موجودہ وفاقی وزیر ماحولیات، ماحولیات سے زیادہ مخولیات کی وزیر زیادہ لگتی ہیں۔ موصوفہ ایک مرتبہ کووڈ 19 کو کرونا وائرس کے 19 نکات قرار دے چکی ہیں، عالمی Air Quality Index کو پاکستان کے خلاف ایک سازش قرار دے چکی ہیں اور پاکستان میں ہونے والی بارشوں کو وزیر اعظم عمران خان کی اچھائی اور نیکی کا ثبوت گردانتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں اس شعبے کے ماہرین موجود نہیں۔ خود حکومتی صفوں میں امین اسلم جیسے لوگ موجود ہیں جو نہ صرف اس معاملے کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کے لئے عالمی سطح پر کام کرتے رہے ہیں۔ ضرورت صرف اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ہے۔ اور رہ گئے بجٹ کے مسئلے تو یاد رکھیے کہ انسانی جانوں پر، ان کی صحت پر لگانے سے زیادہ پیسے کا کوئی مصرف اہم نہیں ہو سکتا اور یہ الفاظ خود وزیر اعظم عمران خان ماضی میں متعدد مواقع پر ادا کر چکے ہیں۔