کیا اسلام میں لونڈیوں کی اجازت ہے؟

کیا اسلام میں لونڈیوں کی اجازت ہے؟
معروف مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی کے مطابق غلام اور لونڈیاں قطعاً اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ایک مصیبت تھی جو اسلام سے قبل عرب کے معاشرے میں موجود تھی اور اسلام نے واضح احکامات کے ذریعے بتدریج اس کے خاتمے کی تعلیمات دی ہیں۔

ایک پروگرام میں غلامی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ تمدن کی جانب آنے میں انسان تین بڑے ادوار سے گزرا ہے۔ سب سے پہلے وہ قبیلوں کی صورت میں منظم ہوا۔ اس کے بعد زراعت کی بنیاد پر اور پھر صنعتی انقلاب انسانوں کے تمدن کا تیسرا بڑا پڑاؤ ثابت ہوا۔ جب انسان قبیلوں کی صورت میں منظم ہونے لگا تو چراگاہیں، نخلستان اور پانی حاصل کرنے کے لیے انسانوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اور لڑائیاں ہونے لگیں۔ ان لڑائیوں میں جو قبیلہ جیت جاتا وہ سزا کے طور پر ہارنے والے قبیلے کے مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیتا تھا۔ نبی کریمﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کی پوری معیشت غلاموں پر منحصر تھی۔ ہر گھر میں غلام اور لونڈیاں موجود تھیں۔ اسلام نے اس نظام کو مصیبت قرار دیا اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے اور انہیں معاشرے کا باعزت حصہ دار بنانے کے لیے مرحلہ وار احکام جاری کیے۔

جاوید غامدی بتاتے ہیں کہ موجودہ دور میں جس طرح سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے اور اس نظام میں بینکوں اور سود کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، گلی گلی میں بینک قائم ہیں، رقم کی ترسیل انہی کے ذریعے سے ہوتی ہے، پرانے زمانے کے معاشی نظام میں غلاموں اور لونڈیوں کو اسی طرح مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ معیشت کا دارومدار انہی پر تھا۔ گھروں اور کھیتوں میں وہی کام کرتے تھے۔ کاروباری سامان دوسرے علاقوں اور ملکوں تک وہی لے کر جاتے تھے اور فروخت کرتے تھے۔ ان میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے؛ جوان، بوڑھے، عورتیں، لولے، لنگڑے۔

آج جب ہم بات کرتے ہیں کہ سود کے نظام کو ختم کیا جائے تو اس کے جواب میں پہلی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اس نظام کا کوئی متبادل لے آئیں پھر اسے ختم کر دیں گے۔ سود کو اسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے جب اس کا کوئی متبادل سامنے آ جائے ورنہ تو معیشت تباہ ہو جائے گی۔ اسی طرح غلامی کا نظام بھی اگر فوری طور پر ختم کر دیا جاتا اور اتنی بڑی تعداد میں غلام اور لونڈیاں آزاد ہو جاتے تو بہت گڑبڑ پیدا ہو سکتی تھی۔ یہ غلام اور لونڈیاں بے آسرا لوگ تھے۔ ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں تھے اور کھانے کو روٹی نہیں تھی۔ وہ جس کی ملکیت ہوتے تھے، تمام عمر کے لیے وہ مالک ان کے کھانے پینے اور دیگر بنیادی ضروریات کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اگر فوری طور پر غلامی کو ختم کرنے کا حکم نازل ہو جاتا تو ایک آن میں بھکاریوں کی ایک فوج پیدا ہو جاتی اور اسی طرح بہت بڑی تعداد میں موجود لونڈیوں کو جسم فروشی پہ مجبور ہونا پڑتا۔ اس لیے قرآن مجید نے مرحلہ وار غلامی کے خاتمے کا پروگرام دیا تاکہ معاشرہ کسی بڑے بگاڑ یا فساد کا شکار نہ ہو۔

جاوید غامدی کے مطابق جس طرح سیلاب کی صورت میں دو طریقوں سے سیلاب کے اثرات کو ختم کیا جاتا ہے کہ ایک تو اس جگہ بند باندھیں جہاں سے پانی آ رہا ہے یعنی پانی آنے والا منبع بند کر دیا جائے اور دوسرا جو پانی اندر آ چکا ہے اسے باہر نکالنے کا بندوبست کیا جائے۔ اسلام نے بھی اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ سب سے پہلے تو غلام بنانے والے دھارے کے منہ پر بند باندھ دیا گیا۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کی پہلی جنگ یعنی غزوہ بدر سے پہلے سورۃ محمد میں حکم آیا کہ جنگ کے خاتمے پر جو لوگ قید میں آئیں، انہیں یا تو فدیہ لے کر آزاد کر دیا جائے یا پھر احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے۔ یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ انہیں غلام بنا کر رکھ لیا جائے۔ اس طرح غلامی کے پیدا ہونے کا راستہ بند کر دیا گیا۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ درپیش ہوا جس میں وہ غلام رہ گئے جو پہلے سے گھروں میں قید تھے۔ انہیں اگر فوراً رہا کر دیا جاتا تو بہت سارے لوگ بے آسرا ہو جاتے۔ اس لیے مرحلہ وار ان کو معاشرے کا حصہ بنانے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ سب سے پہلے سورۃ البلد میں اپیل کی گئی کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ گردنیں چھڑاؤ یعنی غلام آزاد کرواؤ۔ اس طرح مسلمانوں نے خرید خرید کر غلاموں کو آزاد کرنا شروع کر دیا۔ گویا غلاموں کو آزاد کروانے کی ایک تحریک چل پڑی۔ اس کے بعد عام لوگوں اور غلاموں کی نفسیات بدلنے کے لیے ارشاد ہوا کہ غلام اور لونڈی کے لیے عربی میں جو الفاظ استعمال ہوتے تھے یعنی ابد اور اما، ان کا استعمال ختم کر دیا جائے اور ان کی جگہ لڑکا اور لڑکی یا مرد اور عورت والے الفاظ رائج کر دیے گئے تاکہ غلاموں کی نفسیات اور باقی لوگوں کا نکتہ نظر تبدیل کیا جا سکے۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ جتنے ذی صلاحیت غلام ہیں ان کی شادیاں کروائی جائیں تاکہ ان کے گھر آباد ہوں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے راستے نکالیں۔

اس کے بعد مسلمانوں سے جتنے مذہبی گناہ ہوتے تھے مثلاً کسی نے روزہ توڑ لیا، تو اس کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کروانے کی تلقین کی گئی۔ پھر یہ حکم آیا کہ جو خود کھاؤ، اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو انہیں بھی پہناؤ۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ جب لوگ یہ برابری برداشت نہیں کر پائیں گے تو انہیں رہا کر دیں گے۔ پھر سورۃ النساء میں یہ ترغیب دی گئی کہ جن لونڈیوں کی اخلاقی حالت اچھی ہے یعنی جنہیں گھروں میں اچھی طرح رکھا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ حکم آیا کہ ان سے نکاح کیے جائیں تاکہ انہیں معاشرے کا باعزت شہری بنایا جا سکے۔ آخر میں سورۃ النور میں یہ ارشاد ہوا کہ غلاموں کو یہ حق دیا جائے کہ انہیں ایک مخصوص مدت تک مہلت مہیا کی جائے تاکہ وہ خود کما کر اپنی قیمت ادا کریں اور رہا کر دیے جائیں۔ حالانکہ غلامی میں ہوتے ہوئے کوئی غلام اپنی کمائی کا مالک نہیں ہوتا تھا مگر اسلام نے انہیں یہ حق بھی دے دیا کہ وہ خود کی کمائی سے اپنی آزادی خرید سکیں۔ اس طرح گویا اسلام نے غلاموں کی آزادی کا پروانہ ان کے اپنے ہاتھوں میں تھما دیا۔

جاوید غامدی بیان کرتے ہیں کہ برائی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اب اگر کوئی یہ کہے کہ غلام اور لونڈی کا تصور اسلام نے متعارف کروایا یا یہ کہ اسلام میں غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت ہے تو یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ غلامی کا نظام مذہبی نہیں بلکہ معاشرتی ہے اور اسلام کے آنے سے صدیوں پہلے سے معاشرے میں موجود تھا۔ اسلام نے اس کی قطعاً حمایت نہیں کی بلکہ اسے مصیبت سمجھتے ہوئے مرحلہ وار اس کے خاتمے کے لیے احکامات صادر کیے۔