ہینڈ گرینیڈ نے سجاد کی بینائی چھین لی مگر اس کا حوصلہ آج بھی جوان ہے

ہینڈ گرینیڈ نے سجاد کی بینائی چھین لی مگر اس کا حوصلہ آج بھی جوان ہے
سوات کے خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں ایک 20 سالہ نوجوان کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہے۔ یہ سب اس نوجوان کی بانسری سننے آئے ہیں۔ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود محمد سجاد نے لوگوں کو محظوظ کرنے کا فن سیکھ لیا ہے۔

سجاد کی زندگی کچھ سال قبل ایسی نہیں تھی بلکہ وہ محرومیوں اور پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا۔

سوات کے علاقہ منگلور سے تعلق رکھنے والا سجاد اُس وقت بینائی سے محروم ہو گیا جب وہ گھومنے کے لئے سید آباد کے پہاڑوں میں داخل ہوا جہاں پر اُسے ایک پرانا ہینڈ گرینیڈ ملا۔ ہینڈ گرینیڈ کے پھٹنے سے اُس کی بینائی چلی گئی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بانسری، رباب، ستار اور دلسوز شاعری سے لوگوں کو محظوظ کر رہا ہے۔ اس لیے وہ علاقے میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔

سوات کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو 2007 سے 2009 تک سوات میں طالبان کا دور رہا، جس کے خاتمے کے لئے دو دفعہ فوجی آپریشن کئے گئے۔ اس دوران بھاری مقدار میں بارودی مواد کا استعمال کیا گیا اور اس مواد کی باقیات وادی میں ہی رہ گئیں۔

سوات میں دہشت گردی کے دوران ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور ہر گھر سے شہیدوں کے جنازے نکلے۔

سجاد جب دس سال کا تھا تو اسے سید آباد کے پہاڑوں میں گرینیڈ ملا۔ اس وقت اُس کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ گرینیڈ کی وجہ سے اُس کی بینائی چلی جائے گی۔

محمد سجاد کے مطابق ہینڈ گرینیڈ کو وہ خوشی خوشی گھر لے کر آیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے توڑ مروڑ کر مہنگے داموں بازار میں فروخت کر سکے۔ محمد سجاد کا کہنا ہے کہ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو سب گھر والے ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اُس نے گرینیڈ کو توڑنا شروع کر دیا۔ دو تین دفعہ ہتھوڑے مارنے کے بعد وہ پھٹ گیا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ اس دھماکے نے نا صرف محمد سجاد کی آنکھیں چھین لیں بلکہ ایک ہاتھ کی تین اُنگلیاں بھی چلی گئیں۔

'بارودی مواد پھٹنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ میں اپنی آخری سانسیں گن رہا ہوں۔ محلے کے لوگ میرے گھر میں داخل ہوئے اور مجھے سیدو شریف اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ سات دن تک جاری رہنے والے علاج کے بعد مجھے پشاور منتقل کیا گیا اور چھے مہینے تک زیرِ علاج رہا۔'

محمد سجاد نے بتایا کہ وہ طویل علالت کے بعد ایک سال تک گھر میں رہا۔ کیونکہ وہ کہیں آنے جانے سے قاصر تھا۔ 'اس وقت سے میری زندگی بے نور ہو گئی، لیکن میں نے اندر ہی اندر اپنے آپ سے عہد کیا کہ اب چلنے کے قابل ہو جاؤں تو دوسروں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھروں گا۔'

محمد سجاد رباب، بانسری، ستار اور دل سوز شاعری سے نا صرف اپنے علاقے بلکہ پورے سوات میں پہچان رکھتا ہے۔ محمد سجاد بہن، بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور اس کے والد ایک ٹرک ڈرائیور ہیں۔

محمد سجاد عصر کے وقت اُن پہاڑوں میں بانسری بجاتا ہے اور سریلے گیت گاتا ہے جہاں سے اس کو گرینیڈ ملا تھا۔ وہاں وہ نوجوانوں کو اکٹھا کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتا ہے۔

جمعے اور اتوار کو محمد سجاد دوستوں کے ساتھ موسیقی کی محفل بھی سجاتا ہے جہاں پر لوگ اکٹھے ہو کر امن اور پیار کے گیت گاتے ہیں۔ محمد سجاد کی زیادہ تر شاعری امن، پیار اور بھائی چارے پر مبنی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے نغمے اور گیت پسند کئے جاتے ہیں۔

سال 2008 سے 2009 تک سوات میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔ ایسے لمحات بھی ہمیں دیکھنے کو ملے جب طالبان نے مختلف خواتین فنکاروں کو ذبح کیا اور خونی چوک (گرین چوک) میں ان کی لاشیں رکھ چھوڑیں۔

فنکاروں کے صدر ودود نے بتایا کہ اس وقت طالبان کے نشانے پر ہم تھے، جب ہمارے دو فنکاروں کو ذبح کیا گیا تو ہم ڈر گئے اور سوات کو چھوڑنا پڑا۔

'طالبان کی طرف سے ہر روز دو سے تین مرتبہ ہمیں قتل کرنے کے خط اور پیغامات ملتے تھے۔ ہم نے کافی حد تک ان کا مقابلہ کیا لیکن اُن کے ہتھیاروں کے سامنے بالآخر ہم نے گھٹنے ٹیک دیے۔

سوات میں امن کی بحالی میں عام لوگوں، پولیس اہلکاروں، فنکاروں اور پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں جن کی بدولت آج سوات میں امن قائم ہے۔ سیاحوں کی کثیر تعداد سوات کی طرف رخ کر رہی ہے۔ ایک سال کے دوران سوات میں 1 کروڑ 20 لاکھ سیاح داخل ہوئے اور آج کل سوات اور مالاکنڈ ڈویژن امن کا گہوارہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنانے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن میں ایک محمد سجاد بھی ہے جس نے بینائی کھو جانے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میں مسکراہٹیں بکھیر دی ہیں۔

شہزاد نوید پچھلے پانچ سال سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے کام کر رہے ہیں۔