عمران خان کی 'سیفٹی' ریڈ لائن سلیم جعفر کا آخری اوور ثابت ہوئی

عمران خان کی 'سیفٹی' ریڈ لائن سلیم جعفر کا آخری اوور ثابت ہوئی
پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین پر کھیلے جانے والے 1987 کے ورلڈ کپ میں اگرچہ دفاعی چیمپئن انڈیا اور کالی آندھی ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں فیورٹ تھیں لیکن ہندوستان کو ہندوستان میں ہرانے اور مسلسل اچھا کھیلنے والی ٹیم پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں ہاٹ فیورٹ قرار دیا گیا۔ ٹیم گرین نے گروپ میچز جیت کر اس توقع کو کافی حد تک سچ بھی ثابت کیا اور باآسانی سیمی فائنل میں آسٹریلیا کا سامنا کرنے کو تیار ہو گئی۔ یاد رہے کہ اس ورلڈ کپ میں ایلن بارڈر کی زیر قیادت آسٹریلیا برصغیر میں کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ میں کسی گنتی میں نہیں تھی اور اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا بھی حیران کن تھا۔

بہرحال قذافی سٹیڈیم لاہور میں پہلے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کی ٹیم ایک قابل ذکر سکور کرنے جا رہی تھی کہ کپتان نے 'سیفٹی' کے طور پر آخری اوور 'لائن و لینتھ' والے سلیم جعفر کے لیے بچایا جس کو مخالف آل راؤنڈر سٹیو وا نے مار مار کر دنبہ بنا دیا اور یہ اوور ایسا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ مضبوط پوزیشن پہ کھڑی پاکستانی ٹیم پھر میچ میں واپس نہ آ سکی اور اُسی اوور میں دیے گئے رنز کے مارجن سے سیمی فائنل ہار کر اپنے ملک میں کھیلے جانے والے سب سے بڑے ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔

جنرل ضیاء الحق کی 'مداخلت' پر ریٹائرمنٹ واپس لینے والے کپتان کی زیرِ قیادت تقریباً پانچ سال بعد 1992 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے بعد سیکنڈ فیورٹ سمجھی جانے والی پاکستانی ٹیم کو ایسی پے در پے ناکامیاں ہوئیں کہ شائقین تو کیا، کرکٹ پنڈت بھی حیران رہ گئے۔ اخباروں میں کارٹون چھپ گئے کہ پاکستان کی زمبابوے کے خلاف اکلوتی فتح کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انگلینڈ کے خلاف میچ میں جب ٹیم 74 زنز پر ہی ڈھیر ہو گئی تھی اور بوتھم اینڈ کمپنی دن بچا کر پکنک منانے کیلئے پر تول رہی تھی تو اچانک بارش پاکستان کے لئے میچ بچا گئی۔ اس قدرتی معجزے کے طفیل پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ میں واپس آئی اور نان سٹاپ جیتنے والی کیوی ٹیم کی سیمی فائنل اپنے ملک میں کھیلنے کی 'ضد' کی بدولت 'واک اوور' لے کر سیمی فائنل میں میزبان کے ساتھ ٹاکرے کے لئے تیار ہو گئی۔

نیوزی لینڈ کے خلاف بھی عین اسی طرح کپتان کی ایک بار پھر 'بچاؤ' یا ناقص حکمت عملی نظر آئی جو پچھلے ورلڈ کپ میں شکست کا موجب بنی تھی۔ پہلے ہی مخالف ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے تین بالروں والی ٹیم پر حاوی تھی تو آخری اوور کندھے سے زخمی ہو جانے کے باوجود عمران نے خود کروایا جس کا وکٹ کیپر این سمتھ نے فائدہ اٹھایا اور سٹیو وا کی طرح ہی بھرکس نکال کر ایک بڑا ٹارگٹ دیا۔ اگرچہ زخمی کیوی کپتان مارٹن کرو فیلڈ نہ سنبھال سکے لیکن عمران، رمیز کی سست پارٹنر شپ نے ٹارگٹ بہت دور کر دیا۔ میانداد کی دلیرانہ فائیٹ کے باوجود پاکستان ہارنے کے قریب تھا کہ 'بے بی' انضمام کا بلّا چل گیا اور پھر اس بے بی اور بارش کے معجزاتی مومینٹم نے وسیم اکرم کے 'پلس' سپیل کی بدولت پاکستان کو پہلی بار کرکٹ کے ون ڈے فارمیٹ کا عالمی چیمپیئن بنا دیا۔

کپ اٹھانے والے عمران خان کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ قوم پہلے ہی 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والی 'کوکا کولا' کرکٹ پر مرتی ہے تو اب تو بالکل ہی مر مٹے گی، لہٰذا انہوں نے وکٹری سپیچ ایک ٹیم کے کپتان کی بجائے 'وزیر اعظم' کے طور پر کی اور عین اُسی طرح کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جس طرح 9 مئی 2023 کے بعد اپنے ٹائیگرز کو!

خیر واپس ورلڈ کپ کی طرف کہ کپتان کرکٹ سے باضابطہ ریٹائرمنٹ کے بعد ضروری فلاحی و ازدواجی کاموں کے بعد توقع کے عین مطابق سیاست میں داخل ہوئے اور بغیر کسی اپرنٹس شپ کے سب سے بڑے عہدے کی فائل 'داخلِ دفتر' کر دی۔ لیکن اس فائل کی کچھ 'لانگ اور شارٹ کورسز' کے بعد شنوائی ہوئی تو اس پر سلیکٹیڈ اور مخلوط کی عمران جیسے آزاد بندے کے لیے بڑی بے مزہ مہر لگی تھی۔ بظاہر 'میں ہر جگہ کامیاب ہوں گا' والی تشفی تو ہو گئی لیکن وہ 'والہانہ' اور 'دلوں کے یا سچ مچ کے وزیر اعظم' والی 'چُس' پوری نہ ہو سکی۔

باقی جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے لے کر ہوا، اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ قصہ مختصر بیک وقت امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے قدموں اور چرنوں میں بیٹھے کھلاڑی نے اپنی حکومت کی اناڑی کارکردگی کو انہی کے ساتھ سینگ پھنسا کر کمال کھلاڑی ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس قلابازی پر تماش بین قوم سے داد پائی۔ اس 'گھر گھر میں انقلاب' کی بدولت مقبول عام وزیر اعظم کی توقع اور تمنا پوری ہونے کو نظر آنے لگی اور اسمبلیاں توڑنے اور دوسری نو بالز کے باوجود امپائروں کی 'چشم پوشی' کی بدولت اس مملکت کے خان ایسے سیاسی فیورٹ ثابت ہونے لگے کہ لگتا تھا کہ خان آگے چلا جائے گا اور پاکستان پیچھے رہ جائے گا۔ لیکن عین 1987 کے ورلڈ کپ کی طرح کپتان نے بزدلی نما سیفٹی دکھائی اور اپنی پاپولیرٹی کو کیش کرنے کے بجائے ریڈ لائن کے 'چیک' میں تبدیل کر دیا۔

مخالفوں کو یہ کمزوری جیسے ہی پتا چلی انہوں نے گرفتاری والا شاٹ کھیلا اور اس پر ریڈ لائن والے احتجاج کم انقلاب کم بغاوت نے ساری انقلابی کھچڑی پر ایسے پانی پھیر دیا کہ چند دنوں میں ہی دال، پانی اور چاول کے دانے 'عدّت پوری کیے بغیر' ہی بکھرنے لگے ہیں۔ 9 مئی سے 'پھوٹنے' والا انقلاب سڑکوں اور گلیوں سے غائب ہونے کے بعد وہی کی بورڈ پر گالیوں اور 'میں کلّا ای کافی آں' جیسے ٹرینڈز میں تبدیل ہو چکا ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ اب تو نا کسی 'دوسری' بارش کا امکان ہے، نا کسی جنرل کی 'مداخلت' کا۔ نا 'بے بی' فواد ہے، نا وسیم اکرم اور نا ہی اس کا پلس۔۔۔ زمان پارک میں نیلے طوطے (تھوتھے) سے بچنا ہے تو لندن و امریکہ کا اختیار ہے یا پھر ادھر پاک پتن کا دربار۔۔۔ لیکن سُنا ہے کہ وہاں کی بی بی کو بھی واپسی کا خواب آ گیا ہے۔۔۔ اللہ خیر۔

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں