افغانستان میری یادوں کا قبرستان، چھوڑنا جسم سے روح نکلنے کے مانند

افغانستان میری یادوں کا قبرستان، چھوڑنا جسم سے روح نکلنے کے مانند
یہ دسمبر 2016ء کی ایک رات تھی اور میں افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کے ایک چھوٹے ہسپتال میں بطورِ جونئیر ڈاکٹر فرائض سر انجام دے رہی تھی کہ اس دوران ایک دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو لایا گیا۔

ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کی گئی اور سہولیات کے فقدان کے باوجود ہم نے ہر طرح سے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی۔ کچھ زخمیوں کو ابتدائی امداد دینے کے بعد واپس بھیج دیا گیا لیکن افغان فوج کے ایک افسر تھوڑے زیادہ زخمی تھے، اس لئے کچھ دنوں تک وہ ہسپتال میں زیر علاج رہے۔

اس دوران ہمارے درمیان گفتگو ہوتی رہتی۔ زخمی ہونے کے باوجود ان کے چٹان جیسے حوصلے نے مجھے ان کے رومانس میں مبتلا کیا۔ رات کو میری ڈیوٹی ہوتی اور ان سے بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا اور دن کو گھر واپس آکر میں ان کے بارے میں سوچتی اور ان کو زندگی کا ساتھی بنانے کے سپنے دیکھتی۔

ہسپتال سے فارغ ہونے کے وقت میں نے ان سے ٹیلیفون نمبر لیا اور پھر ہم مسلسل رابطے میں رہتے۔ ہم نے جیون ساتھی بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک خاتون ہونے کے باوجود میں نے حوصلہ کرکے ان کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم دونوں نے ایک سال بعد شادی کرلی۔

یہ کہانی افغانستان کے کابل سے تعلق رکھنے والی ایک ڈاکٹر ماہ جبیں کی ہے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کچھ روز پہلے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوئیں اور ان کا اگلا ٹھکانہ جرمنی ہے۔

نیا دور میڈیا نے اپنے قارئین کے لئے ان سے ملاقات کی اور ان کی کہانی سامنے لانے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر ماہ جبیں مشکل صورتحال میں کابل سے اسلام آباد منتقل ہوئیں اور پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے سمیت بارڈر پار کرانے کے کئی مشکلات کا انھوں نے سامنا کیا۔

ڈاکٹر ماہ جبیں کہتی ہیں کہ شادی کے بعد اللہ نے ان کو جڑواں بچوں سے نوازا مگر ایک بچہ دوران زچگی وفات پاگیا جبکہ دوسرا بچہ صحت مند تھا، شوہر کے ساتھ مل کر انھوں نے ان کی پرورش کی اور ہم بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔

ان کا کہ نا تھا کہ میرے شوہر افغانستان کے ایک ضلع کے سیکیورٹی انچارج تھے اور مجھے ان کی زندگی کو لاحق خطرات کا ہر وقت فکر رہتا تھا لیکن منع کرنے کے باوجود وہ افغان آرمی چھوڑنے پر راضی نہیں تھے اور مجھے یہی کہتے تھے کہ اس طرح اگر ہر کوئی فوج چھوڑ کر گھر بیٹھ جائے گا تو وطن کا دفاع کون کریگا۔

وقت گزرتا گیا اور سال 2019ء شروع ہوا۔ مارچ کے مہینے میں اپنے بچے کے ساتھ مشغول تھی کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور دوسرے طرف سے میرے شوہر کے یونٹ سے کال تھی کہ ببرک ایک حملے میں شدید زخمی ہو چکے ہیں اور ان کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کابل منتقل کیا جا رہا ہے۔

میں یہ فون سنتے ہی دوڑی دوڑی کابل ہسپتال پہنچی مگر میرے سامنے ببرک کی لاش تھی۔ میں ببرک کی لاش اور اپنے معصوم بچے کے ساتھ ہسپتال سے نکل گئی اور اسی دن میری زندگی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔

خاتون ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ببرک کا غم ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ سسرال نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا اور افغانستان میں میری آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ افغانستان ناصرف میرے لئے بلکہ ہزاروں خاندانوں کے لئے یادوں کا قبرستان ہے اور میں جرمنی پہنچ کر ببرک اور بچے کی یادوں کے ساتھ ایک نئی کا آغاز کرونگی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔