کیا 1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی تھی؟

کیا 1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی تھی؟
1965 کی جنگ کے بارے میں اکثر دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ بلا اشتعال تھی اور بھارت نے رات کی تاریکی میں ہم پر مسلط کی۔ معروف صحافی وسعت اللہ خان لکھتے ہیں: "سکولی نصاب کے مطابق بھارت نے چھ ستمبر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر پاکستان پر حملہ کیا۔ مگر کیوں کیا؟ بھارت پر اچانک کوئی دماغی دورہ پڑا یا حملے کی کوئی خاص وجہ تھی؟ بچوں کو اس بابت کچھ نہیں بتایا جاتا۔ اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے کامیاب جنگ کیوں کہا جاتا ہے؟"

اسی طرح پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے دوسرا دلچسپ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان نے واضح طور پر جیت لی تھی۔ 6 ستمبر کو ہر سال اسی لئے یوم دفاع پاکستان منایا جاتا ہے۔ مگر کیا یہ جنگ واقعی پاکستان نے جیتی تھی؟ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے؟ آج ہم اسی سوال کا جواب ڈھونڈیں گے۔

اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 کی جنگ باقاعدہ طور پر 6 ستمبر کو شروع ہوئی تھی مگر بیش تر تاریخ دانوں اور محققین کی رائے میں اس جنگ کا آغاز اپریل میں رن آف کچھ کے علاقے میں ہونے والی جھڑپوں سے ہو گیا تھا۔ امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کر کے ایک دفعہ تو اس کشیدگی کو کم کروا دیا مگر تنازع پوری طرح ختم نہ کروایا جا سکا۔ اس کے بعد کے واقعات کی مختصر ٹائم لائن کچھ یوں ہے:

28 جولائی کو آپریشن جبرالٹر کے تحت پاکستان نے چند ہزار سویلین بھارت میں داخل کیے۔

آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد بھارت نے جوابی نقل و حرکت شروع کر دی اور درہ حاجی پیر کی اہم گزرگاہ پر 24 اگست کو قبضہ کر لیا جس کے سبب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر براہ راست خطرے میں آ گیا۔

25 اگست کو بھارتی فوج نے دانا کے مقام پر قبضہ کر لیا۔ اب بھارتی فوج مظفر آباد کے قریب پہنچ گئی تھی۔

28 اگست کو بھارتی فوج نے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔

31 اگست کو پاک فوج کی جانب سے آپریشن گرینڈ سلام شروع کر دیا گیا۔ اس کا مقصد جموں کے علاقے اکھنور پر قبصہ کر کے بھارتی رسد کو کاٹنا تھا۔

2 ستمبر کو اس آپریشن کی کمان میجر جنرل اختر حسین ملک سے لے کر میجر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ میجر جنرل اختر حسین ملک احمدی تھے اور فوجی حلقے اس بات پر تشویش میں مبتلا تھے کہ اگر آپریشن کامیاب ہو گیا تو اس کی کامیابی کا سہرا ایک احمدی جنرل کے سر باندھا جانا ناقابل برداشت ہوگا۔ تاہم، یحییٰ خان کے مطابق انہیں کبھی یہ آرڈرز نہیں ملے کہ اکھنور پر قبضہ کرنا ہے لہٰذا احمدی ہونے یا نہ ہونے کا سوال شاید اس دعوے کے بعد غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ عین آپریشن کے بیچ میں پاکستانی فوج کی جانب سے ڈویژن کمانڈر کی تبدیلی کے فیصلے نے آپریشن کی کامیابی کے امکانات مسدود کر دیے۔ پاکستانی پیش قدمی رکی تو اگلے 24 گھنٹوں میں بھارت نے اس محاذ پر اپنی فوجی حیثیت مستحکم کر کے آپریشن گرینڈ سلام کا راستہ بھی روک دیا۔

4 ستمبر کو دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے ترک سفارت خانے کے توسط سے دفتر خارجہ کو پیغام بھیجا کہ بھارت اگلے 48 گھنٹے میں سرحد پار کرنے والا ہے مگر سیکرٹری خارجہ عزیز احمد اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پیغام کو یہ سوچ کر دبا دیا کہ ارشد حسین ضرورت سے زیادہ پریشان ہو رہا ہے کیونکہ انہیں انتہائی ذمہ دار بین الاقوامی ذرائع یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ بھارت ایسی حماقت نہیں کرے گا۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ذرائع کون تھے۔

6 ستمبر کو بھارتی فوج نے بین الاقوامی سرحد عبور کرلی جس کی اطلاع ایوب خان کو صبح 4 بجے کے قریب ملی۔ اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پاکستان کے کچھ علاقے بھارت اور بھارت کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آ گئے۔

7 ستمبر کو چینی قیادت کی جانب سے بھارت کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنی مہم جوئی فوراً روک دے۔ اس کے ساتھ ہی لداخ سے متصل چینی سرحد پر تھوڑی بہت نقل و حرکت بھی شروع ہو گئی۔

8 ستمبر کو امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے بھارت اور پاکستان کو اسلحے کی رسد معطل کر رہا ہے۔ اسی دن کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ خان نے صدر مملکت کو آگاہ کیا کہ فوج کو ایمونیشن کی قلت کا سامنا ہے۔

10 ستمبر کو پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کو کچھ اضافی طیاروں اور زمینی ہتھیاروں کی ہنگامی رسد کی درخواست کے ساتھ بیجنگ بھیجا گیا اور یہ اپیل کی گئی کہ چین یہ ہتھیار انڈونیشیا کے راستے بھجوائے تا کہ پاکستان کو کھلم کھلا چینی ہتھیار ملنے پر امریکی خفگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چین نے یہ رسد خفیہ ہی رکھی۔ انڈونیشیا نے بھی ہتھیاروں کی ایک کھیپ پاکستان کے لئے بھجوائی۔ اصغر خان نے ایران اور ترکی کا بھی دورہ کیا۔

11 ستمبر کو سیکرٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

15 ستمبر کو صدر ایوب خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر جانسن سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں قیام امن کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

17 ستمبر کو چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں بھارت سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔ پاکستان نے چین کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔

19 اور 20 ستمبر کی درمیانی شب صدر ایوب خان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پشاور سے ایک خصوصی طیارے میں سوار ہو کر بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آ گئے۔ اس خفیہ دورے میں عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم چو این لائی نے پاکستان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی بجائے ایک طویل جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو ان کے سامنے جھکنا چاہیے اور نہ ہی ان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ مگر پاکستانی حکام ایک طویل جنگ لڑنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔

20 ستمبر کو امریکہ اور سوویت یونین کی کوششوں سے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی۔

22 ستمبر کو بھٹو نے سلامتی کونسل میں ایک دھواں دھار تقریر کی اور بھارت کے خلاف ہزار سال تک لڑتے رہنے کا نعرہ لگایا۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لا کر دیا گیا۔ اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ بھٹو نے تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائے گا۔

اسی دن بھارت نے بھی سلامتی کونسل میں بیان دیا کہ ہم جنگ بند کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ 22 ستمبر کو پاکستان اور بھارت کے مابین محاذ پر خاموشی چھا گئی۔

جنگ بندی کے فوراً بعد سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کے مابین صلح کروانے کی پیش کش کر دی۔

10 جنوری 1966 کو تاشقند میں سوویت یونین کی ثالثی میں پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ایک امن سمجھوتے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں بس یہ سطر شامل تھی کہ فریقین نے ایک دوسرے کے موقف کو بغور سنا۔ فریقین نے اپنی اپنی فوجیں 5 اگست 1965 کی پوزیشن تک پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا۔

یوں اپریل میں شروع ہونے والی جھڑپیں ایک باقاعدہ جنگ میں داخل ہو کر بالآخر ختم ہو گئیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی لائبریری آف کانگریس کے ریکارڈ کے مطابق سترہ روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پاکستان کے 3800 جبکہ بھارت کے 3000 فوجی ہلاک ہوئے۔ پاکستانی فوج کے دعووں کے مطابق انہوں نے بھارتی فوج کے 20 آفیسر، 19 جونیئر کمیشنڈ آفیسر اور 569 دیگر رینک کے سپاہی قید میں لیے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جنگ کے آغاز ہی میں 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات کو بھارتی سرحد کے اندر سات سے آٹھ میل تک پیش قدمی کی اور کھیم کرن کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں بھارت میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ 1965: A Western Sunrise کے مصنف اور معروف تاریخ دان شو کنال ورما لکھتے ہیں کہ جنگیں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ اسی مقصد کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پہ جنگ کی جیت اور ہار کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 1965 کی جنگ کے پیچھے پاکستان کا مقصد کشمیر حاصل کرنا تھا اور پاکستان یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہوئی ہے۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ جس انداز میں ہوا اسے ہم بھارت کی بھی فیصلہ کن جیت نہیں کہہ سکتے۔ مصنف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے ہر لحاظ سے بھارتی فضائیہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

بھارتی دعووں کے مطابق بھارت نے پاکستان کے 740 مربع میل رقبے پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ پاکستان کے ہاتھ بھارت کا محض 210 مربع میل رقبہ آیا۔ تاہم، آسٹریلوی اخبار The Australian کے مطابق یہ جنگ پاکستان کی فتح پر منتج ہوئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ورما جی کے مطابق جنگ میں فتح یا شکست کا فیصلہ سیاسی مقصد کے حصول سے ہی نتھی ہے تو انڈین ایکسپریس کے ہی ستمبر 1965 کے شماروں میں بھارتی سپہ سالار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لاہور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، وہ ایسا کبھی کر نہیں پائے۔ بھارتی فوج کی تعداد پاکستان سے ساڑھے چار گنا زیادہ تھی۔ پاکستان کا اس جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کے سامنے دفاع کرنا ہی اس کی فتح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان 6 ستمبر کو ہر سال یومِ دفاع مناتا ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔