افسانہ نگار غلام عباس کا 'آنندی' اور پاکستانی سیاست

افسانہ نگار غلام عباس کا 'آنندی' اور پاکستانی سیاست
شاید آج کل کے نوجوان برصغیر کے مشہور افسانہ نگار غلام عباس سے ناواقف ہوں اور انہوں نے بھارتی فلم 'منڈی' بھی نہ دیکھی ہو۔۔ سمیتا پاٹیل، شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ، اوم پوری، وغیرہ کی۔۔ جس کا ماخذ عباس صاحب کا مشہور زمانہ افسانہ 'آنندی' ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ شہر کے شرفا طوائفوں کے کوٹھوں سے تنگ ہیں۔ ان کا اور ان کی نسل کا اخلاق خطرے میں ہے۔ شہر کو اسلام اور اخلاق کا قلعہ بنانے کے لئے تمام طوائفوں کو سنسان بیابان جنگل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے گھر تعمیر کراتی ہیں۔ گھروں کی تعمیر سے جڑے جو جو لوازمات ہوتے ہیں ان کے پیچھے پیچھے آ جاتے ہیں۔ چند ماہ میں ان کے گھر تیار ہو جاتے ہیں۔ تماش بین وہاں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک نیا شہر وجود میں آ جاتا ہے، جس کی معیشت پرانے والے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے بنگلہ دیش کی طرح۔ کچھ ہی عرصے بعد نئے شہر کے شرفا پرانے والوں کی طرح ان طوائفوں سے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ شریفوں کی بستی جسے آباد ہی طوائفوں نے کیا تھا یہ فیصلہ کرتی ہے کہ انہیں شہر کے کسی دور دراز علاقے میں منتقل کر دیا جائے تا کہ اسلام اور اخلاقیات محفوظ رہ سکیں۔

'آنندی' اور 'منڈی' دونوں سے مجھے عشق ہے۔ آنندی اکثر پڑھتا ہوں۔ منڈی اکثر دیکھتا ہوں۔ اب کہ افسانہ پڑھا اور فلم دیکھی تو یہ کالم لکھنے کا موقع مل گیا۔

موجودہ منظر:
اسلام کے ناقابلِ تسخیر قلعے کے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں۔ 71 سے اب تک تین سیاسی پارٹیوں؛ پی پی پی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کو آزمایا جا چکا ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تینوں ہی بدعنوان ہیں۔ عوام کی بھلائی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ لیڈر قانون سازی کے بجائے 'گھڑی سازی' کر رہے ہیں۔ سارا ٹبر چور ثابت ہو چکا ہے۔ ٹین پرسنٹ اب ٹین تھاؤزینڈ پرسنٹ بن چکا ہے۔

ایسے میں قلعے کے چوٹی کے تمام باضمیر صحافی و بکواسی، پوری اینکر و ٹینکر مافیا، تجزیہ کار و فنکار ہمنوا سول و ایول (evil) سوسائٹی ایک اہم میٹنگ کر رہے ہیں۔ موضوع یہ ہے کہ معاشرے کو ایک اصول پسند، باضمیر، دیانت دار، جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس دار سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک برانڈ نیو سیاسی جماعت ناگزیر ہے۔ ایسی جس میں کوئی لوٹا، کھوٹا یا چلا ہوا کارتوس نہ ہو۔ جس کا ماضی داغ دار یا متنازعہ نہ ہو۔ غرضیکہ تازہ تازہ پیدا ہوئے بچے کی مانند معصوم ہو۔ ایک ریڑھی والا بھی پارلیمنٹ میں صاف و شفاف طریقے سے پہنچ سکے۔ ممبران سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کرنے کے بجائے صرف قانون سازی پر توجہ دیں۔

سب شرکا اس بھاشن سے اتفاق کرتے ہیں اور ایک نت نئی، بے داغ اور باکردار سیاسی جماعت بی بی پی ظہور پذیر ہو جاتی ہے۔ سب ممبران واقعی بے داغ کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ سب کے سب ریڑھی والے ہی ہوتے ہیں۔ عوام سو فیصد ووٹوں سے اس جماعت کو منتخب کرتے ہیں۔ یہ اقتدار میں آ کر فوج، عدلیہ اور افسر شاہی کو بھی نتھ پا دیتے ہیں۔ جو جی میں آئے، کر گزرتے ہیں کیونکہ حزب اختلاف تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ سب پرانے پاپی باہر ہیں۔

چھ ماہ بعد:
تمام باضمیر صحافی و بکواسی، پوری اینکر و ٹینکر مافیا، تجزیہ کار و فنکار ہمنوا سول و ایول (evil) سوسائٹی ایک اہم میٹنگ کر رہے ہیں۔ موضوع یہ ہے کہ بی بی پی کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری اور گالم گلوچ میں ماضی کی تمام سیاسی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ معاشرے کو ایک اصول پسند، باضمیر، دیانت دار، جموریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس دار سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک برانڈ نیو سیاسی جماعت ناگزیر ہے۔۔۔۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔