'قریشی، اسد عمر، ترین، شفقت محمود کو زبردستی پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تھا'

'قریشی، اسد عمر، ترین، شفقت محمود کو زبردستی پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تھا'
عمران خان کو جب لانے کی تیاری ہو رہی تھی تو 2010 اور 2011 میں ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، جہانگیر ترین اور اسد عمر کو زبردستی پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تھا۔ یہ لوگ اپنی خواہش پر تحریک انصاف میں نہیں شامل ہوئے تھے اور یہ بات ان لوگوں نے خود مجھے بتائی تھی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں بھی بعض لوگ شکایت کر رہے تھے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پی ٹی آئی میں لایا جا رہا ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے معروف کالم نگار سلیم صافی نے۔

نیا دور کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی نے بتایا کہ عمران خان کو لانے میں بہت سے لوگوں نے کردار ادا کیا۔ جنرل حمید گل اور عمران خان کے مابین طے ہوا تھا کہ ان میں سے ایک پارٹی کا چیئرمین اور ایک صدر ہو گا، مگرعمران خان اپنے وعدے سے مکر گئے۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے میری کچھ صحافیوں کے ہمراہ باجوہ صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں ہمیں پتہ چلا کہ باجوہ صاحب عمران خان کے بڑے مداح بن گئے ہیں اور ان کو لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میڈیا اور عدالت کو بھی اس مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ 2018 میں تو سپ کچھ واضح تھا کہ کس طرح ان کو لایا جا رہا ہے، عمران خان کی جیت پہ تو اس وقت کے آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے ٹوئٹ کیا تھا۔

عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود کو مسیحا بنا کر پیش کیا تھا، نوازشریف کے ساتھ انتقام کا پہلو بھی تھا، اس لئے عمران خان کو لایا گیا تھا۔ اقتدار کے بعد پتہ چلا کہ ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی، انہوں نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، معیشت کا بیڑا غرق کر دیا، عمران کی حکومت جیسے چل رہی تھی پاکستان نے جون میں ڈیفالٹ کر جانا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے خارجہ امور کو بہت خراب کر لیا تھا، اسٹیبلشمنٹ حالات ٹھیک کرتی تھی تو عمران خراب کر دیتے تھے۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو روکنا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اپنے دور حکومت میں عمران خان نے اپنی ساری غلطیوں کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو ڈھال بنایا ہوا تھا۔ ان معاملات کو دیکھ کے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملک کی سلامتی کے لئے عمران کو ہٹایا جائے، اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی اور عمران سے سارے سہارے اٹھا لئے گئے۔

باجوہ صاحب نے ایک بندے کی خاطر اپنے ادارے کو بدنام کیا، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی دشمنی بھی مول لی، ادارے کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنے، عمران خان نے آرمی کی اہم تعیناتیوں میں بھی روڑے اٹکائے، جنرل باجوہ کو میر جعفر اور میر صادق بھی کہا، باجوہ صاحب کو ضرور عمران خان کو لانے کا پچھتاوا ہو گا۔ میرے خاندان اور میری والدہ کو گالیاں دی گئی ہیں، اس کے باوجود میں ذاتیات پہ بات نہیں کرتا، ورنہ مجھے ان کی اندر کی باتوں کا علم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین، نعیم الحق اورعون چودھری جیسے چند ہی لوگ وفادار تھے، ان کے علاوہ جو لوگ عمران کے اردگرد جمع ہیں وہ سب خوشامدی ٹولہ ہیں۔

میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں، میرے علاوہ عادل شاہ زیب اور راجہ احسان بھی اس بات کے گواہ ہیں، عون چودھری سے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے ان دو صاحبان کے لئے پاس کے بارے میں بات کی، جب ان مہمانوں کو ایوان صدر کے دروازے پر روکا گیا، میں نے عون چودھری کو فون کیا کہ ہمارے بندوں کو روکا گیا ہے، وہ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے رو رہے تھے اور بولے کہ میں تو خود نہیں گیا، اس نے بتایا کہ ملٹری سیکرٹری کو پہلا آرڈر یہ ملا ہے کہ عون چودھری کو ایوان صدر میں داخل نہیں ہونے دینا، اس کے بعد کی تفصیل وہ اب خود بتا چکے ہیں۔
میں کابل میں اشرف غنی کا انٹرویو کرنے گیا ہوا تھا، میں وہاں سے کوئٹہ آیا تو کور کمانڈر عاصم سلیم باجوہ صاحب کی طرف سے ڈنر دیا گیا تھا اور میں بھی اس میں مدعو تھا، جہانگیر ترین صاحب بھی آرمی چیف کے ساتھ بیٹھے تھے، میں نے ترین سے پوچھا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ معاملے کو بیلنس کرنے کے لیے آپ کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس سازش میں خان صاحب بھی شامل ہیں۔ مگر انہوں نے اسے میری بدگمانی قرار دیا۔ فواد چودھری کی ٹویٹ گواہ ہے کہ ترین کو بیلنس کے لیے نااہل کیا گیا تھا۔ عون چودھری عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطہ کار تھے، اب عون نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔

ارشد ملک کی ویڈیو بھی آئی تھی، شوکت صدیقی کی گواہی بھی تھی، کارروائی کی بجائے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا، اب عون چودھری کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے۔ اس معاملے کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا ایک فل کورٹ بنچ بننا چاہئیے جو ترین، عمران خان اور نواز شریف کے کیسز پہ نظر ثانی کر کے حقائق کو عوام کے سامنے لائے، یہ عدلیہ کے وقار کا معاملہ ہے جس کو فل بنچ کے ذریعے سے دیکھنا چاہئیے۔
عمران خان کو پارٹی فنڈنگ کیس میں 8 سال سے این آر او ملا ہوا ہے۔ توشہ خانہ کیس، ٹیریان خان کیس، لندن سے آئی ہوئی رقم اور شہزاد اکبر والے کیس میں بھی ان کو رعایت ملی ہوئی ہے، اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر کوئی پریشر نہیں ہوتا تو پھر عمران خان کا ان کیسز میں بچنا مشکل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں دخل اندازی غیر آئینی اور گناہ ہے، اس لئے پہلے گناہ کی تلافی کرنا ہو گی، مگراسٹیبلشمنٹ نے کچھ معاملات کو چھوڑ کر نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا، ابھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی ان کے دائرے کے اندر آئے گا تو ان کا ردعمل آئے گا، ورنہ دوسری صورت میں وہ نیوٹرل رہیں گے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔