ادارہ برائے سماجی انصاف کا "سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور اقلیتوں کے حقوق" پر سیمینار

ادارہ برائے سماجی انصاف کا
ادراہ برائے سماجی انصاف ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کام کرتا ہے، یہ ادارہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی اداروں پر زور دیتا ہے کہ اقلیتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کو یقنی بنائیں تا کہ وہ سیاسی نظام کا حصہ بن کر ملک کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکیں۔

ادارہ برائے سماجی انصاف نے "سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور اقلیتوں کے حقوق" کے موضوع پر 20 جنوری کو اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں حقوق اور آزادیوں کی مساوات کے نفاذ کے لیے بامعنی وعدے کرنے اور ٹھوس منصوبے بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ سیمینار سے پیٹر جیکب، افراسیاب خٹک، نوید عامر جیوا، ظفر اللہ خان، ڈاکٹر عبدالحمید نئیر اور ڈاکٹر ہما چغتائی نے خطاب کیاجبکہ سُنیل ملک نے نظامت کے فرائض سر انجام دئیے۔

اس موقع پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کیے گئے وعدوں، اقدامات اور کارکردگی کے تجزیے پر مبنی ادارہ "وفاوں کا تقاضہ ہے" جاری کی گئی۔ تحقیقی جائزے کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے وعدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں کر سکی۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ووٹرز کے ساتھ کیے گئے وعدے، اور پاکستان کے آئین میں انسانی حقوق کی تکمیل کے حوالے سے شہریوں کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، ارکان پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ٖضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابات 2023 کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُنھیں با معنی اور حقیقت پسندانہ وعدے کرنے چاہییں اور اُنھیں پورا کرنے کے لیے ایک روڈ میپ بھی تیار کرنا چاہیے جس سے سیاست کا معیار بہتر ہو اور پاکستان میں اصلاحات کے ذریعے سیاسی عمل پختہ ہو۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے پورا نہ ہونے کی صورت میں شہریوں میں مایوسی پھیلتی ہے۔ پاکستان جمہوریت کے نظریات پر تشکیل پاپامگر بد قسمتی سے ریاست نے انتہا پسندی کو ایک پالیسی کے طور پر اپنا رکھا ہے، اور سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین پر تنقید اور مذہب کو سیاسی معاملات میں غلط استعمال کرنے پر مبنی بیانیہ پر تکیہ کرتی ہیں۔ جس سے پرامن بقائے باہمی بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قرارداد مقاصد کو آئین پاکستان کے دیباچے سے خارج کرنے کی ضرورت ہے اور آئین میں شہریت کی برابری پر مبنی دفعات کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔

وزارت برائے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے پارلیمانی سیکرٹری نوید عامر جیوا نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی یوم اقلیت اور سینیٹ میں اقلیتوں کے لیے نشتیں متعارف کروائی ہیں۔ پارٹی اقلیتوں کو درپیش چیلنجز کو مؤثر طریقے سے دور کرنے کے لیے قانونی، پالیسی اور انتظامی اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ظفر اللہ خان نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے گئے وعدے خیراتی ماڈل پر انحصار کرتے ہیں، اور شہریت کی مساوات کے تصور پر مبنی ٹھوس وعدے متعارف کرانے کی ضرورت ہے، اور ان پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ افراد شماری 2023 میں چھوٹی اقلیتوں کو الگ سے شمار کیا جانا چاہیے، اور اقلیتی امیدواروں کو ان حلقوں میں جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا جانا چاہیے، جہاں مخصوص سیاسی جماعتوں کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہو۔

ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے فیصلہ سازی کے اختیارات کسی بھی بااثر گروہ کے حوالے نہیں کرنے چاہئیں، اس کے بجائے انہیں مذہب کی بنیاد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے مثبت پالیسی اصلاحات متعارف کروانے کے لیے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر ہما چغتائی نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں کسی بھی امتیاز کے بغیر مساوی شہریت کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بالخصوص امتیازی سلوک، عدم برداشت اور انتہا پسندی کو دور کریں لیکن وہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے با معنی اصلاحات متعارف کرانے میں ناکام رہیں۔

تحقیقی جائزے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے انتخابی منشور میں کیے گئے پانچ وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا، حالانکہ اس نے دو وعدوں پر جزوی پیش رفت کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن دس میں سے نو وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے آٹھ میں سے ایک وعدے پر جزوی طور پر عمل کیا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ تین انتخابی سالوں یعنی 2008، 2013، 2018 کے دوران پارٹیوں کے منشور میں ایک تہائی وعدے مشترک تھے جن میں متروکہ وقف املاک بورڈ میں اقلیتوں کی نمائندگی، اقلیتی کمیشن کا قیام، جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینا، نصاب کا جائزہ لینا، ملازمتوں کے کوٹے پر عمل درآمد اور امتیازی قوانین کا جائزہ لینا شامل تھا تاہم ان پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔

تحقیقی جا ئزہ میں بتایا گیاکہ 2008 اور 2022 کے دوران پنجاب حکومت نے11 پالیسی اقدامات متعارف کروائے جبکہ وفاقی حکومت نے 9، بلوچستان حکومت نے 8، خیبر پختونخوا حکومت نے 7 اور سندھ حکومت نے 6 اقدامات اٹھائے۔ پالیسی اقدامات میں مضبوط قانونی بنیاد اورعمل درآمد کا فقدان تھا جو ہمارے انتظامی نظام کی سنجیدگی سے دوبارہ جانچ کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پالیسی اقدامات نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو کہ انتظامی اختیارات کا آسان استعمال ہے جبکہ حکومت کو واضح طور پر مختلف اقدامات میں قانون سازی اور طریقہ کار کے قواعد کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکالرشپ، عبادت گاہوں، وغیرہ کے لیے مختص فنڈز کے استعمال کے بارے میں ٹھوس معلومات کو عام نہیں کیا گیا تھا یا نوٹیفیکیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے عمل درآمد میں کمی تھی جس سے پالیسی اقدامات کا مقصد پورا نہیں ہوا۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ کے نتائج درج ذیل ہیں:

الف) حکومت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہیں، اور انہوں نے اسلامیات کے متبادل کے طور پر دینی علوم کو شامل کرنے پر جزوی پیش رفت کی۔
ب) منشوروں میں کچھ "منفرد وعدے" بھی شامل تھے مثلاً تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبا کے لیے کوٹہ مختص کرنا،تکفیرکےقوانین کے بداستعمال کو روکنا، قانون ساز اسمبلیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی اور آئینی اصلاحات متعارف کروانا۔ ان "منفرد وعدوں" سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خواب دیکھنے کی ہمت بھی کرتی ہیں۔
ج) وعدوں میں ایسے ایشوز بھی شامل ہو گئے جو حقیقی مسائل نہیں متصورہ تھے اور انکا حل غیرمنطقی اورغیرمعقول تھا مثلاً مخصوص نشستوں پربراہ راست انتخابات اور اقلیت کی اصطلاح کو"غیر مسلم" سے تبدیل کرنا۔ غالباً اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں مذہبی آزادی اورشہریوں کے مساوی حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
د) اگرچہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کو درپیش مسائل سے قدرے آگاہ تو ہیں، وعدے بھی کئے مگر عمل درآمد میں ناکام رہیں۔ من جملہ منشوروں میں کئے گئے وعدے مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا گہرائی سے احاطہ نہیں کرتے۔
و) گزشتہ تین انتخابی منشوروں میں سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ کم ہوئی ہےاور خیراتی اقدامات پر زیادہ۔
ہ) سیاسی جماعتوں کا انتخابات کے بعد وعدے فراموش کردینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو اہمیت نہیں دیتیں۔ یہ بھی ہوا کہ اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے پرانے وعدے وفا کئے بغیرنئے انتخابی منشور میں نئے وعدے شامل کر لئے۔ جویہ ظاہر کرتا ہے کہ مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔
ی) سال 2008تا 2022 کے دوران متعارف کروائے گئے پالیسی اقدامات سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت نے قانون سازی کی بجائے انتظامی حکم نامے (نوٹیفیکیشن) جاری کرنے پر زیادہ انحصار کیا۔ لہٰذا پالیسی اقدامات میں نفاذ کے طریقہ کاراورمضبوط قانونی بنیاد کا فقدان تھا۔ اقلیتوں کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ کی پالیسی کی ناکامی میں یہ عنصرغالب رہا۔